بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اوقات صلوٰۃ کے منکر کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اوقات صلوٰۃ کا منکر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

(وضاحت: مذکورہ شخص کا مؤقف یہ ہے کہ پانچ نمازوں سے متعلق احادیث من گھڑت ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں، بس کسی بھی وقت پانچ نمازیں پڑھ لو، یہ کافی ہے۔)

جواب

نماز کو اس کے مقررہ وقت پر پڑھنا قرآن کریم کی نصِ قطعی سے ثابت ہے، لہذا اگر کوئی شخص مطلقاً اوقاتِ صلوٰۃ کا منکر ہو کہ شریعت میں فرض نماز کے اوقات ہی مقرر نہیں، بلکہ جب چاہے پڑھ لے، تو ایسا شخص نصِ قطعی کے انکار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔

اگر سوال کا مقصد کچھ اور ہے تو مکمل وضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر دوبارہ ارسال کریں۔

قرآن کریم میں ہے:

"إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً" (سوره نساء: 103)

ترجمہ:”یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے ۔“ (بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا أنكر الرجل آية من القرآن، أو تسخر بآية من القرآن وفي الخزانة، أو ‌عاب كفر."

(کتاب السیر، الباب التاسع، ج: 2، ص: 266، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں