میرا شوہر ایک ذہنی مریض ہے ،رات سوتے ہوئےوہ کب کچھ بھی اٹھا کر مار دے کچھ نہیں کہہ سکتے ،جھگڑا کرنا ،گندی گالیاں دینا ،اس کی عادت ہے،جس کی وجہ سے کمرہ الگ کر دیا گیا ہے ،ڈاکٹر کو دکھانے کا کہو تو کہتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں ،پچھلے پندرہ سالوں سے یہ کیفیت ہے ،پہلے یہ کیفیت کم تھی اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ،سات سال سے ہم الگ ہیں ،شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی بیوہ والی زندگی ہے ،دوسرے اور بھی بہت سے مسائل ہیں ،نوکری چھوڑ دی ہے ،کوئی ذمہ داری بھی ادا نہیں کرتے،میں ایک سکول میں نوکری کرتی ہوں اور ٹیوشن پڑھاتی ہوں اور اس سے اپنی اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہوں ۔
کیا مجھے خلع لینا چاہیے ؟یا یہ رشتہ ختم ہو چکا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا شوہر ذہنی مریض ہے،اورسائلہ کے حقوق ادا نہیں کر پاتا، نہ نباہ کی کوئی صورت ممکن ہے ،اور نہ بڑوں کے ذریعے صلح کی کوئی صورت ہو سکتی ہے، تو پھر سائلہ اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے ،اگر وہ طلاق یا خلع نہ دے، اور نہ حقوق ادا کرنے کو تیار ہو، نہ نان و نفقہ دے رہا ہو توو ایسی سخت مجبوری کی صورت میں عدالت کے ذریعے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ بیوی شوہر کی جانب سے نان ونققہ نہ دینے ، بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی بنیاد پر اپنا معاملہ مسلمان قاضی /جج کی عدالت میں پیش کرے، اور اپنے نکاح اور اس دعوی پر شرعی گواہ بھی پیش کرے، پھر متعلقہ قاضی/ جج اس معاملہ کی پوری تحقیق کرے، اس کے بعد اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر نان نفقہ اور اس کے ضروری حقوق ادا نہیں کرتا ہے، تو اولاً عدالت شوہر کو نان و نفقہ اور حقوق کی ادائیگی کا حکم کرے ، اگر شوہر نان و نفقہ اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ ہوجائے تو ٹھیک ہے ، اور اگر انکار کردے تو عدالت اس نکاح کو فسخ کرسکتی ہے ۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اگر عدالت نکاح فسخ کرتی تو عدت گزار کر سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَاّ أَنْ يَخافا أَلَاّ يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَاّ يُقِيما حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ."[سورة البقرة، آية:229]
ترجمہ: ”اور تمھارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ (چھوڑنے کے وقت) کچھ بھی لو، (گو) اس میں سے (سہی) جو تم نے ان کو (مہر میں) دیا تھا، مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ الله تعالیٰ کے ضابطوں کو قائم نہ کرسکیں گے، سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔ یہ خدائی ضابطے ہیں، سو تم ان سے باہر مت نکلنا، اور جو شخص خدائی ضابطوں سے بالکل باہر نکل جائے سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔“ (از بیان القرآن)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب الثامن، ج:1، ص:488، ط:المكتبة الکبری مصر)
مبسوطِ سرخسی میں ہے :
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173، ط:دارالمعرفة بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومعلوم أن المرأة لا تملك الطلاق، بل هو ملك الزوج لا ملك المرأة، فإنما يقع بقول الزوج وهو قوله: خالعتك فكان ذلك منه تطليقا إلا أنه علقه بالشرط، والطلاق يحتمل التعليق بالشرط، والإضافة إلى الوقت لا تحتمل الرجوع والفسخ ولا يتقيد بالمجلس ويقف الغائب عن المجلس ولا يحتمل شرط الخيار، بل يبطل الشرط ويصح الطلاق.
وأما في جانبها فإنه معاوضة المال؛ لأنه تمليك المال بعوض، وهذا معنى معاوضة المال فتراعى فيه أحكام معاوضة المال كالبيع ونحوه وما ذكرنا من أحكامها، إلا أن أبا يوسف ومحمدا يقولان في مسألة الخيار: إن الخيار إنما شرع للفسخ، والخلع لا يحتمل الفسخ؛ لأنه طلاق عندنا، وجواب أبي حنيفة عن هذا أن يحمل الخيار في منع انعقاد العقد في حق الحكم على أصل أصحابنا فلم يكن العقد منعقدا في حق الحكم للحال، بل هو موقوف في علمنا إلى وقت سقوط الخيار فحينئذ يعلم على ما عرف في مسائل البيوع والله الموفق.وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة،ج:3،ص:145،ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101207
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن