بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

آوارہ کتوں کے ڈر اور خوف سے فجر کی نماز گھر میں پڑھنا


سوال

ہمارے علاقے میں فجر کے وقت کتے بہت ہوتے ہیں اور مجھے کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے، جبکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ کاٹتے نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود میرے دل میں ڈر رہتا ہے، تو کیا ایسی صورت حال کی وجہ سے میں فجر کی نماز گھر میں ادا کر سکتا ہوں ؟براہ کرم وضاحت فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے فجر میں آوارہ کتوں کے ڈراور خوف کی وجہ سےجبکہ وہ کاٹتے بھی نہیں ہیں  نمازِ فجر مسجد کے بجائے گھر میں پڑھنے کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اس میں جہاں مسجد کی جماعت سے محرومی ہے وہیں مسجد کی حق تلفی کا گناہ بھی ہے، لہذا مسجد میں جاکرباجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، باقی علاقہ کی انتظامیہ سے بات چیت کرکے ان کتوں کو ٹھکانہ لگوادیا جائے، یا کسی نمازی شخص کے ساتھ مسجد آنے جانے کی ترتیب بنالی جائے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مسجد قریب موجود ہو اور پھر وہاں کی جماعت بلا عذر ترک کرکے مکان پر کوئی شحص اپنی نماز پڑھ لے تو اگرچہ فرض ادا ہوجاتا ہے، مگر یہ بہت بڑی محرومی ہے، حدیث پاک میں ہے:"مسجد کے قریب رہنے کی والے نماز نہیں ہوتی مگر صرف مسجد میں۔اگر مسجد میں جاکر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے تو اپنے مکان پر اہل وعیال کو لے کر جماعت کرلی جائے، مسجد کی جماعت کا مستقلاً ترک کرنا گناہ ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ:6/417،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج، وإذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه."

(کتاب الصلوٰۃ،الفصل الاول فی الجماعة ، ج:1، ص:82 ، ظ:رشیدیه)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه - عليه الصلاة والسلام - قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها۔"

(باب الامامة، ج:1، ص:554،ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں