ایک شخص نے سونے کا کام شروع کیا، کرایہ کی دکان تھی، سرمایہ نہیں تھا، لوگوں کے لیے آرڈر پر زیور بناتا تھا، پھر اس کے بیٹے اس کام میں شریک ہوئے، والد کے کام کو آگے بڑھایا، محنت کرتے رہے، یہاں تک کے اتنا منافع جمع ہو گیا کہ ایک الگ دکان خرید کر کاروبار کو وہاں منتقل کر دیا، اور سرمایہ سے اب سونے کو خریدنے اور فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں، رسید پر والد اور بیٹوں دونوں کا نام ہے۔والد بیس سال سے کوئی کام نہیں کر رہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دکان اور کاروبار والد کا شمار ہو گا یا بیٹوں کا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسی دکان پر پندرہ سال پہلے ایک کاریگر کا 230 تولہ سونا قرضہ تھا، جس قرضہ کو ایک بیٹے نے ، جس کا الگ کاروبار بھی تھا، اپنی دکانیں دے کر ادا کیا، یعنی: سونے کے بدلے میں دکان دے دی، اب یہ بھائی اپنا قرضہ سونے کی مد میں وصول کرے گا یا رقم کی صورت میں؟
قرضہ اتارتے وقت والد اور دیگر بھائیوں کے علم میں لائے تھے، لیکن کسی کے سامنے یہ صراحت نہیں ہوئی تھی کہ کس طرح وصول کروں گا۔
واضح رہے کہ جب بیٹے اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں بغیر کسی پیشگی معاہدے کےحصہ لیں تو وہ کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والا سارا نفع والد کا ہوتا ہے، بیٹےوالد کےمعین و مددگار شمار ہوتےہیں.
لہذا صورت مسئولہ میں جو بیٹے والد کے ساتھ ان کے کاروبارمیں ساتھ ہیں اور کا روبار میں ان کا کوئی سرمایہ شامل نہیں تو وہ کاروباراور اضافہ سب والد صاحب ہی کی ملکیت شمار ہوگا۔
2۔ مذکورہ دکان پر جو کاریگر کا 230 تولہ سونا قرضہ تھا اور اس قرضہ کو ایک بھائی نےاپنی ذاتی دوکانیں دے کرادا کردیا تھاتو ایسی صورت میں مذکورہ بھائی رقم کی مد میں قرض وصول کرسکتا ہے، سونے کی مدقرضہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة........... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا....... (استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف."
(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص161،ط:سعید)
العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیۃ میں ہے:
"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".
(باب القرض، ج:1، ص279، ط: دار المعرفه)
فتاوی شامی میں ہے:
"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله".
(کتاب الشرکۃ،فصل في الشرکة الفاسدة،ج:4،ص:325،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101180
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن