بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت عدت وفات کہاں گزارے؟


سوال

میری بہن کے شوہر کا مورخہ 26 نومبر 2021 کو انتقال ہوگیا تھا، اور میری بہن کے سسرال والے بضد ہیں کہ ہم اس کو اپنے ساتھ سسرال لے کرجائیں گے، قرآن وسنت کی روشنی بتائیں  کہ جس کا شوہر انتقال کرجائے،  اسے اپنی عدت پوری کرنے کےلیے کہاں رہنا چاہیے، کیا میں اپنی بہن کو اس کے سسرال جانے کی اجازت دوں  یا اپنے گھر یعنی میکے میں ہی عدت پوری کرواؤں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کی بہن اپنے  شوہر کے انتقال سے قبل شوہر کے ساتھ   جس مکان  میں  رہائش پذیر تھی ، اسی مکان میں اپنی عدت (چار ماہ دس دن اگر حاملہ نہ ہو، اگر حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک)  گزارے گی، البتہ اگر  وہاں عدت گزار نے میں اس کی جان ، مال یا عزت و آبرو کو خطرہ ہو    یا کرایہ کا مکان ہواور خود کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو  تو ایسے اعذار کی صورت میں سائل کی بہن اپنے میکے میں  بھی عدت گزار سکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔"

وفی الرد:

"(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية۔۔۔ (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها.

(قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا۔"

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، فصل فی الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100198

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں