بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے روزے کی حالت میں چہرے کے بال نکالنے اور نکلوانے کا حکم


سوال

روزے کی حالت میں چہرے کے بال نکلوا سکتے ہیں؟

جواب

خواتین کے لئے جسم کے زائد بال کاٹنے کا حکم:

 روزے کی حالت میں خواتین کے لیے اپنے چہرے کے خلافِ عادت آنے والے بال مثلاً داڑھی، مونچھ،  پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال یا جسم کے دیگر (سر کے علاوہ) بال صاف کرنا جائز ہے، البتہ ان بالوں کو نوچ کرنکالنا مناسب نہیں، کیوں کہ اس میں بلاوجہ اپنے جسم کو اذیت دیناہے،  کسی پاؤڈر وغیرہ  کے ذریعہ یا کسی ایسے طریقہ سے  جس سے جسم کو تکلیف نہ ہو ، یہ بال صاف کرنا  زیادہ بہتر ہے۔

عورت کے لیے عام حالات میں بھی بھنویں بنانا (دھاگا یا کسی اور چیز سے)یا اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر باریک دھاری بنانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،  اسی طرح  دونوں ابرؤں کے درمیان کے بال زیب وزینت کے حصول کے لیے کتروانا جائز نہیں،  البتہ اگر  اَبرو بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہوں تو ان کو درست کرکے  عام  حالت کے مطابق   (ازالۂ عیب کے لیے )معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

مردوں کے لئے جسم کے زائد بال کاٹنے کا حکم:

اسی طرح مردوں کی داڑھی کے بال ایک مشت سے زائد ہوجائیں تو ان کا کاٹنا  جائز ہے، اور ڈاڑھی کے علاوہ  مثلاً  جبڑوں کی ہڈی سے اوپر  گال پر آنے والے بال کاٹنا بھی جائز ہے۔

صورتِ مسؤلہ میں   روزے کی حالت میں مرد  کے لیے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق چہرے کا زائد بال  کاٹنا جائز ہے،البتہ نوچ کر نکالنا مناسب نہیں ہے،اور عورت کے لئے چہرے وغیرہ کا زائد بال کسی پاؤڈر وغیرہ کے ذریعہ   صاف کرنا  بہتر ہے،جب کہ نوچ کر نکالنا مناسب نہیں ہے۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"فهو ‌عبارة ‌عن ‌ترك ‌الأكل ‌والشرب ‌والجماع من الصبح إلى غروب الشمس بنية التقرب إلى الله كذا في الكافي".

(کتاب  الصوم، باب في تعريفه وتقسيمه وسببه ووقته وشرطه، ج:1، ص:194، ط: رشیدیہ)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"وفي الشرع الصوم هو ‌الإمساك ‌عن ‌المفطرات الثلاثة نهارا مع النية".

(کتاب الصوم، تعریف الصوم، ج:4، ص:3، ط:دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه والسنة في عانة المرأة النتف (قوله وتنظيف بدنه) بنحو إزالة الشعر من إبطيه ويجوز فيه الحلق والنتف أولى. وفي المجتبى عن بعضهم وكلاهما حسن، ولا يحلق شعر حلقه، وعن أبي يوسف لا بأس به ط. وفي المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث تتارخانية".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع،ج:6، ص:406، ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً:

"لقوله صلى الله عليه وسلم «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة"۔۔۔(قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب.

النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ،".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،ج:6، ص:364، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں