بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کے ترکہ میں اس کے سابقہ شوہر کی اولاد بھی حق دار ہوگی


سوال

میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی پہلی شادی سے دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں، ان میں سے ایک بیٹے کا والدہ کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا۔

پھر علیحدگی کے بعد والدہ نے دوسری شادی کی جس سے ایک بیٹا اور مجھ سمیت تین بیٹیاں ہیں۔اس دوسرے شوہر ( یعنی ہمارے والد ) کا آج سے تیس سال قبل انتقال ہوگیا تھا، ترکہ میں ایک گھر چھوڑا تھا، جس میں والدہ رہتی تھیں، اب والدہ کا بھی انتقال ہوگیا۔اب والدہ کے پہلے شوہر کی اولاد والدہ کے دوسرے شوہر ( یعنی ہمارے والد ) کے ترکہ کے گھر میں حصہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کیا ان کا حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو پھر شرعی تقسیم کیا ہوگی۔

والد کے والدین اور والدہ کے والدین ان کی زندگی میں انتقال کرگئے تھے۔

جواب

والد کے انتقال کے بعد چوں کہ اسی مکان میں آٹھواں حصہ والدہ کا بطورِ وراثت بنتا تھا، لہذا اب والدہ کے انتقال کے بعد صرف اسی  حصہ میں والدہ کے دوسرے شوہر کی اولاد کے ساتھ والدہ کے پہلے شوہر کی اولاد  بھی شریک ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کی میراث کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ (یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد، اور اگر مرحوم پر کوئی قرض ہے تو کل مال سے اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد ) باقی ترکہ کے 360 حصے کرکے 136 حصے مرحوم کے حقیقی بیٹےکو، 68 حصے مرحوم کی ہر حقیقی بیٹی کو،  10 حصے مرحوم کے سوتیلے زندہ بیٹے کو، اور 5 حصے مرحوم کی ہر سوتیلی بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت ( والد ) :مسئلہ:360/40/8

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
514777
فوت شدہ126636363

میت ( والدہ ) :مسئلہ:9۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مف:5

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2211111
101055555

فیصد کے اعتبار سے 100 فیصد میں 37.777 فیصد مرحوم کے حقیقی بیٹے کو، 18.888 فیصد مرحوم کی ہر حقیقی بیٹی کو، 2.777 فیصد مرحوم کے سوتیلے زندہ بیٹے کو اور 1.388 فیصد مرحوم کی ہر سوتیلی بیٹی کو ملیں گے۔

ارشادِربّانی ہے:

{لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ}  (سورۃ النسآء، الآیة:11)

”لڑکےکاحصہ دولڑکیوں کےحصہ کےبقدرہے“(معارف القرآن)

تفسیرابن کثیرمیں ہے:

"فقوله تعالى: {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى."

(سورۃالنساء، الآية:11، ج:2، ص:225، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608100723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں