مسئلہ یہ ہے کہ اگر ماہ ِرمضان میں امام صاحب مسجد کے علاوہ باہر جگہ پر نمازِ عشاء اور تراویح پڑھاتے ہیں، اور وہاں ماہ ِرمضان میں عورتوں کے لیے بھی نمازِ عشاءاور تراویح کا انتظام کیا گیاہو،لیکن امام صاحب کے پیچھے صفوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہو کہ مرد امام کے پیچھے صفوں میں ہوں اورعورتیں امام صاحب کی بائیں طرف کھڑی ہوں، لیکن مردوں اور عورتوں کی صفوں کے بیچ میں ایک کمرہ کا فاصلہ ہے، جس میں بآسانی چھ یا سات آدمی کھڑے ہوسکتےہیں،اس کا نقشہ کچھ یوں ہے:
امام صاحب
صف اول :مرد حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ....... [ کمرہ ] خواتین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صف ثانی:مرد حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[ کمرہ ] خواتین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صف ثالث :مرد حضرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[ کمرہ ] خواتین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا عورتوں کی نمازیں درست ہیں یا نہیں ؟اگر درست نہیں ہیں تو وہ نماز عشاء کے ساتھ تراویح کی بھی قضاء کریں گی؟اگر دونوں کی قضاء کریں گی تو اس کے لیے کیا نیت کریں گی؟
2 ۔اگر نقشہ اور صورت اس طرح ہوکہ امام کے بعد مردوں کی صف ہو اور مردوں کی صف کے بعد ایک صف کی جگہ خالی ہو،پھر اس کے پیچھے ایک کمرہ ہو، اور اس کمرے سے خواتین امام کی اقتداء کریں، اس کا کیا حکم ہے؟
1۔صورت مسئولہ میں جب مردوں اور عورتوں کے درمیان فصل لانے والا پورا ایک ایسا کمرہ ہے جس میں بآسانی چھ یا سات آدمی کھڑے ہوسکتے ہیں تو یہ مانع اقتداء ہے،لہذا اس صورت میں عورتوں کی اقتداء درست نہیں ہوئی ہے ، جتنی نمازیں خواہ فرض ہوں یا تراویح ، اس امام کی اقتداء میں ادا کی ہیں، وہ نمازیں نہیں ہوئی ہیں ،اب صرف فرض کی قضا کرنا عورتوں پر لازم ہے،تراویح چوں کہ سنت ہے اس لیے اس کی قضا لازم نہیں ہے ۔
قضاء نمازوں کی نیت کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ان عورتوں کو قضانمازوں کی تعداد یاد ہے تو نیت میں جس رات کی عشاء کی نماز کی قضا کریں اس کو متعین کریں، اور قضا نماز پڑھ لیں،اور اگر نمازوں کی تعدادیاد نہیں ہے تو قضا کرتے وقت یہ نیت کریں کہ میں پہلی عشاء کی نماز یا آخری عشاء کی نماز کی قضا کرتی ہوں ۔
2۔ اس صورت میں بھی اقتداء صحیح نہیں ہے۔
نیزعورتوں کے لیے اصل شرعی حکم یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز ادا کریں ،گھر سے باہر مسجد میں باجماعت نماز کے لیے جانا یا اور کسی جگہ باجماعت نماز کےلیے جانا فتنہ و فساد کے اندیشہ کی بناء پر مکروہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء، واتحاد مكانهما وصلاتهما،وصحة صلاة إمامه، وعدم محاذاة امرأة، وعدم تقدمه عليه بعقبه،وعلمه بانتقالاته وبحاله من إقامة وسفر، ومشاركته في الأركان، وكونه مثله أو دونه فيها."
"(قوله واتحاد مكانهما) فلو اقتدى راجل براكب أو بالعكس أو راكب براكب دابة أخرى لم يصح لاختلاف المكان؛ فلو كانا على دابة واحدة صح لاتحاده كما في الإمداد، وسيأتي.وأما إذا كان بينها حائط فسيأتي أن المعتمد اعتبار الاشتباه لا اتحاد المكان، فيخرج بقوله وعلمه بانتقالاته."...........(قوله وعلمه بانتقالاته) أي بسماع أو رؤية للإمام أو لبعض المقتدين رحمتي وإن لم يتحد المكان."
(كتاب الصلاة،باب الإمة،ج:1،ص:550،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"ولو كان بينهن وبين الرجال فاصل لا تفسد صلاتهم وذلك الحائل مقدار مؤخر الرحل أو مقدار خشبة منصوبة أو حائط قدر ذراع اهـ. وحاصله أنه إذا كان صف النساء أمام صف الرجال يمنع إلا إذا كان أحد الصفين على حائط مرتفع قدر قامة أو كان بينهما حائل مقدار مؤخر رحل البعير أو خشبة منصوبة أو حائط قدر ذراع."
(كتاب الصلاة،باب الإمة،ج:1،ص: 576 , 584،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين ...... إذا كان بينهما حائط لا يصح الاقتداء إن كان كبيرا يمنع المقتدي الوصول إلى الإمام لو قصد الوصول إليه اشتبه عليه حال الإمام أو لم يشتبه كذا في الذخيرة ويصح إن كان صغيرا لا يمنع أو كبيرا وله ثقب لا يمنع الوصول وكذا إذا كان الثقب صغيرا يمنع الوصول إليه لكن لا يشتبه عليه حال الإمام سماعا أو رؤية هو الصحيح وأما إذا كان الحائط صغيرا يمنع ولكن لا يخفي حال الإمام فمنهم من قال: يصح الاقتداء وهو الصحيح. هكذا في المحيط.
(الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع ، ج : 1 ، ص : 87 , 88 ، ط : دارالفکر)
الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:
"والحائل كجدار كبير لا يمنع الاقتداء إن لم يشتبه حال إمامه بسماع من الإمام أو مبلغ عنه أو رؤية ولو لأحد المقتدين ولو من باب مشبك يمنع الوصول، ولم يختلف المكان حقيقة كمسجد، وبيت، فإن المسجد مكان واحد، إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا، وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لاحكم الصحراء.وبه تبين أن الحائل لا يمنع الاقتداء بشرط عدم الاشتباه وعدم اختلاف المكان، ولا يشترط إمكان الوصول إلى الإمام وعدمه.....والخلاصة: إن اختلاف المكان يمنع صحة الاقتداء، سواء اشتبه على المأموم حال إمامه أو لم يشتبه، واتحاد المكان في المسجد أو البيت مع وجود حائل فاصل يمنع الاقتداء إن اشتبه حال الإمام. أما وجود فاصل يسع صفين أو أكثر في الصحراء أو في المسجد الكبير جدا، فيمنع الاقتداء."
(الفصل العاشر: أنواع الصلاة ،المبحث الأول ـ صلاة الجماعة وأحكامها (الإمامة والاقتداء):المطلب الرابع ـ الأمور المشتركة بين الإمام والمأموم ، ج : 2 ، ص : 1248 ، ط :دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا."
(کتاب الصلاۃ ، باب قضاء الفوائت ، فروع فی قضاء الفوائت ، ج : 2 ،ص : 67 ، ط : دار الفکر بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وكره لهن حضور الجماعة إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء والفتوى اليوم على الكراهة في كل الصلوات لظهور الفساد. كذا في الكافي وهو المختار. كذا في التبيين."
(الفصل الخامس في بيان مقام الإمام والمأموم ، ج : 1 ، ص : 89 ، ط : دارالفکر)
فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:
سوال : اگر امام ایک کمرہ میں ہو اور اس کے ساتھ چند مقتدی ہیں اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض مقتدی دوسرے الگ کمرے میں اقتداء کرتے ہیں تو ان کی اقتداء درست ہے یا نہیں؟
الجواب : صورت مسئولہ میں اگر دونوں کمرے ساتھ ہیں اور درمیان میں بڑا راستہ یا دو صف کے بقدرخالی جگہ نہیں ہے تو دوسرے کمرے والوں کی اقتداء صحیح ہے ورنہ نہیں۔
(کتاب الصلاۃ ،اقتداء کے احکام ، ج : 2، ص : 284 ، زمزم پبلشر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102799
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن