میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں، ڈیڑھ سال پہلے میری شادی ہوئی ہے، ایک سال تک شوہرنے پہلی بیوی سے یہ بات چھپاکر رکھی ، میں نے بتانے پر مجبور کیا تو ایک سال بعد بتادیا، پہلی بیوی کو معلوم ہونے کے بعد میرے شوہر مجھے بالکل وقت نہیں دیتے، پہلی بیوی انہیں بالکل نہیں چھوڑتی، میرے پاس نہیں آتے، سوال یہ ہے کہ دو بیویوں کے درمیان شریعت کا کیا حکم ہے؟ اگر ایک بیوی کی وقت نہ دیا جائے اس کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں شرعی راہ نمائی فرمادیں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مقدسہ نے شرائط کے تحت جہاں ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، وہیں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان نان ونفقہ، لباس اور شب پاشی میں برابری بھی کرے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
"وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِي الْيَتٰمىٰ فَانْكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنىٰ وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمٰنُكُمْ ذلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّاْ تَعُوْلُواْ "(سورة النساء، الأية:3)
ترجمہ: اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دو (عورتوں سے) اور (تین تین عورتوں سے) اور چار چار (عورتوں سے) پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی (بی بی پر بس کرو) یا جو لونڈی تمھاری ملک میں ہو (وہی سہی) اس (امرِمذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے ۔(بیان القرآن)
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحبؒ اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی پر بیس کرو، یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمہاری ملک ہو اس سے گزارہ کر لو اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے، جب کہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کر سکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے ، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھی جائے۔‘‘(سورۃ النساء، آیت:3، ج: 2، ص:293، ط: معارف القرآن)
بہرحال شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے، اور ایک بیوی کو جتنا نان نفقہ و دیگر ضروریات کا سامان چھوٹی بڑی تمام اشیاء،تحفہ تحائف وغیرہ دے ، اتنا ہی دوسری بیوی کو بھی دے ؛ پس جو شخص اپنی بیویوں کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔
"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي."
(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)
"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج".
(مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)
"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".
(مسلم،كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل)
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی دونوں بیویوں کے درمیان مذکورہ چیزوں میں برابری کرے یعنی جتنا اپنی پہلی بیوی کی ضروریات اور شب باشی میں وقت دیتا ہے، اتنا ہی دوسری بیوی(سائلہ) کو بھی وقت دے اور خلافِ شرع کام کرکے اپنے آپ کو اتنی سخت وعیدوں میں شامل نہ کرےکہ جو اس کے لیے آخرت میں پکڑ اور پشیمانی کا باعث بنے۔باقی اگر بیوی کسی مصلحت کے ساتھ شوہر کو بخوشی اس میں رعایت دیتی ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ
( الباب السابع عشر في النفقات،ج:1، ص:544، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.
وفي الرد: قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا فإن إحداهما قد تكون غنية والأخرى فقيرة، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقا في النفقة."
(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:202، ط: سعيد)
عمدۃ القاری میں ہے:
"إذا كان رجل له امرأتان أو ثلاث أو أربع يجب عليه أن يعدل بينهن في القسم...وتمام العدل أيضا بينهن تسويتهن في النفقة والكسوة والهبة ونحوها."
(كتاب فضائل القرأن، باب العدل بين النساء، ج:20، ص:199، ط: دار إحياء التراث)
بذل المجھود میں ہے:
"(باب: في القسم) أي العدل (بين النساء) في المبيت (1) والطعام والكسوة والإعطاء."
(كتاب النكاح، باب في القسم بين النساء، ج:8، ص:62، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101329
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن