میری بہن کو میرے بہنوئی نے نشہ کی حالت میں طلاق دی ہے ، لیکن اب بچے کی کفالت کےبارے میں جھگڑاہے ، شو ہر کے خاندان والے کہتے ہیں کہ بچی کی آپ پرورش کریں لیکن اگر آپ نے کہیں اور شادی کی تو بچہ واپس لے لیں گے ۔ کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں ؟ بچی کی عمر سات ماہ ہے اور بچی کی نانی اور دادی زندہ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے بہنوئی نےنشہ کی حالت میں اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہیں یاتین سےکم طلاقیں دیں رجوع نہیں کیا ،اورعدت بھی گزر چکی ہے،تو دونوں کانکاح ختم ہو چکاہے،میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد لڑکی کی پرورش کا حق نو سال کی عمرہونےتک اور لڑکےکا سات سال کی عمر ہونےتک ان کی والدہ کو حاصل ہے، بشرطیکہ بچوں کی والدہ ان کے غیرمحرم سے شادی نہ کرے، اگر مطلقہ نے بچوں کے کسی غیرمحرم سے شادی کر لی، تو والدہ کا پرورش کا حق ختم ہوجائے گا اور پھرنانی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو۔ اور اگر نانی زندہ نہیں، تو دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق و العتاق."
(کتاب الطلاق،مطلب في تعريف السكران وحكمه : ج:3 ،ص:239 ، ط : سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الباب السادس عشر في الحضانة.....وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ، وإن علت ، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها ، وإن علت كذا في فتح القدير ."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشرفی الحضانۃ ،ج:1،ص:541 ،ط: رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرةً بالغةً عاقلةً أمينةً قادرةً، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ"
(کتاب الطلاق، باب الحضانۃ ،ج:3،ص:555 ،ط: سعید.)
الدر المختارمیں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرًا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً."
(کتاب الطلاق، باب الحضانۃ ،ج:3،ص:566 ،ط:سعید.)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن