میری شادی 2022ءجولائی میں ہوئی تھی،ایک سال میں اپنےشوہرکےساتھ رہی اورایک سال بعدستمبر2023ءمیں گھریلو،معاشی پریشانیاں اورشوہرکی بدسلوکی کی وجہ سےمیں اپنےماں باپ کےگھرواپس آئی ،کیوں کہ میرےشوہرکچھ کام نہیں کرتےتھےاورمیری ذمہ داری اٹھانےکوراضی نہیں تھے،اس لیےمیں آن لائن ملازمت کرتی تھی اور شوہرکےساتھ بزنس بھی شروع کیا،اپنی جمع پونجی سےجس سے گزاراہوتاتھااورمیراخاوندبجائےخودکام کرنےکےمیرےہی آسرےپر تھاجس کی وجہ سےمجھے کافی پریشانی کا سامناتھا،پھرانہوں نے2023ءاکتوبرکےمہینےمیں مجھےتین بارکہاکہ میں تمہیں آزادکرتاہوں،جس کاشوہربھی اقرارکرتاہے۔
پھراس کےکچھ دن بعداس نےمعافی مانگی اورکہاکہ میں رجوع کرتاہوں،توہم دونوں نےرشتےکوآگےبڑھانےکےلیےرضامندی ظاہرکردی تھی،لیکن میں سسرال واپس نہیں گئی تھی اورفتوی کےمطابق ایک طلاق واقع ہوئی ،جس میں مزیدیہ کہاتھاکہ نئےمہرکےساتھ دوبارہ نکاح کرناہوگا،لیکن نکاح نہیں ہوااورمیں سسرال بھی نہیں گئی،یہ کام کےلیےتیارنہیں ہوا،میرےوالدین اس سےکہاکرتےتھےکہ کچھ کام کرواوربیوی کولےجاؤکہ آگےجاکرزندگی میں پریشانی نہ ہواورگھرکاخرچ چل سکے،لیکن اس نےاس عرصےمیں بھی کوئی کام نہیں کیا،صرف معاملات کوخراب کیا۔
میں نےان کےڈرانےدھمکانےپرمجبوراعدالت میں خلع کامقدمہ دعوی دائر کردیااورایک سال تک خلع کےکیس کولٹکائےرکھاکہ شایدکچھ معاملات ٹھیک ہوجائیں،لیکن مجبورا 30اگست 2024ءکومجھےعدالت سےفیصلہ لیناپڑا،عدالت نےمیرےخاوندکوبلوایا،میرےخاوندنےعدالت میں خلع پررضامندی ظاہرکردی،جس پرعدالت نےخلع کا فیصلہ سنایا،لیکن ابھی تک اس کی ڈگری جاری نہیں کی ہے۔
پہلےمیرےخاندنےمجھےطلاق دی, پھرعدالت میں خلع پربھی رضامندی ظاہرکردی اورمیرےخاوندمجھےشرعی طریقےکےمطابق رکھنابھی نہیں چاہتے،اب میرےلیے شرعاکیاحکم ہے؟جب کہ میرےخاندمجھےکہتےہیں کہ میں نےخلع کےدعوی پرزبانی رجوع کرلیاتھا،لہذااب عدالتی خلع کی کوئی حیثیت نہیں ہےاورمیں تمہیں زبانی طلاق نہیں دوں گا،براہِ کرم میری قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ میرےلیےشریعت کاکیاحکم ہے؟
اگرشریعت کی روشنی میں پہلی مرتبہ کی طلاق واقع ہوچکی ہےتواب میری عدت کی حساب کب سےہوگا؟پہلی طلاق کےبعدعدت شروع ہوگی یاعدالتی خلع کےبعدشروع ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃًسائلہ کےشوہرنےاسےتین مرتبہ یہ کہاتھاکہ’’ میں تمہیں آزادکرتاہوں‘‘،توپہلی مرتبہ کہنےسےہی ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی تھی،چوں کہ ایک طلاقِ بائن واقع ہونےکےبعددوسری طلاقِ بائن واقع نہیں ہوئی لہذابقیہ دوطلاقیں واقع نہیں ہوئیں،چوں کہ عدت گزرچکی ہےلہذاان کانکاح ختم ہوچکاہے،اب سائلہ کے لیےتجدیدِ نکاح کےبغیرسابقہ شوہرکےساتھ رہناشرعاجائزنہیں،اور اگر سائلہ کسی اور جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو کر سکتی ہے شرعاً اور قانوناً دونوں اعتبار سے کوئی پکڑ نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول وهو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء."
(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، ج:1، ص:377، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله حرام) من حرم الشيء بالضم حراما امتنع، أريد بها هنا الوصف ومعناه الممنوع فيحمل ما سبق، وسيأتي وقوع البائن به بلا نية في زماننا للتعارف.... بأن المتعارف إنما هو إيقاع البائن لا الرجعي حتى لو قال لم أنو لم يصدق ولو قال مرتين ونوى بالأولى واحدة وبالثانية ثلاثا صحت نيته عند الإمام وعليه الفتوى كما في البزازية ح عن النهر... بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي."
(كتاب الطلاق،باب الكنايات،ج:3،ص:299،ط:دارالفكر،بيروت)
فتاوی دار العلوم دیوبندمیں ہے:
تم آزاد ہو دو مرتبہ کہا کونسی طلاق ہوئی؟
(سوال ٦٠٢) ایک شخص نے اپنی بیوی کو غصہ میں پہلی مرتبہ یہ کہا کہ تم مجھ سے آزاد ہواور دوسری مرتبہ کہا جاؤ تم مجھ سے آزاد ہو اور تیسری مرتبہ کہا کہ مجھ سے آزاد ہو۔ اس صورت میں کون سی طلاق واقع ہوئی؟ صرف تجدید نکاح سے حلال ہو جائے گی یا حلالہ بھی شرط ہے؟ اس سوال پر ایک دوسرے مولوی کا جواب لکھا ہوا تھا جس سے وقوعِ طلاق ِثلثہ مفہوم ہوتا تھا۔
(جواب) اس صورت میں بندہ کے نزدیک طلاق بائنہ اس شخص کی زوجہ پر واقع ہوئی۔ جیسا کہ در مختار میں ہے انت حرة تو آزاد ہے۔ کنایات کی اس قسم میں سے ہے کہ جس میں بحالتِ غصہ بلانیت کے طلاق بائنہ واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جو الفاظ کنایہ شوہر نے کہے، ان سے بحكم "لا يلحق البائن البائن" جدید طلاق واقع نہ ہو گی۔
عبارت در مختار :أنت واحدة انت حرة الخ - وفى الغضب توقف الا ولان الخ ولا يتوقف ما يتعين للجواب
(شامی ج ۲ ص ٤٦٥ أقول وانت انت حرة للجواب )
کتاب الطلاق، جلدنہم، ص:310،ط:دار الاشاعت، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102245
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن