1۔ایک شخص کی نئی نئی شادی ہوئی ہے،اور زوجہ دینی تعلیم حاصل کررہی ہے،تعلیم پوری ہونے میں تین سے چار سال تک کا وقفہ ہے،کیا تعلیمی حرج کی وجہ سے عزل کیا جاسکتا ہے؟
2۔موجودہ دور میں کم سے کم مہر کتنا دیا جاسکتا ہے؟
3۔ ایک لڑکے نے لڑکی کو کہا کہ "اللہ کی قسم اگر ہماری شادی ہوئی تو میں تمہیں مہر میں صرف 10 روپے دوں گا"،اب ان کی شادی ہورہی ہے، تو اب اس صورت میں کیا کیا جائے؟
نوٹ:ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے،فتوی حاصل کرنے کے بعد اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
1۔واضح رہے کہ اولاد اللہ رب العزت کی جانب سے عطاء کردہ تحفہ ہے، پس شادی کے بعد حصول اولاد کے اسباب اختیار کرنے سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے، لہذا صورت مسئولہ میں تعلیم مکمل کرنے کی خواہش کی بنیاد پر عزل کرنا اگرچہ شرعا ممنوع نہیں،تاہم یہ اچھا اقدام بھی نہیں،پس اولاد کے معاملہ کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے۔
2۔مہر کی کم سے کم مقدار 10درہم کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت ہے، اور 10 درہم کا وزن 2تولہ ساڑھے سات ماشہ ہے، اور موجودہ وزن کے مطابق اُس کی مقدار 30 گرام 618 ملی گرام چاندی بنتی ہے، اس سے کم مہر مقرر کرنا جائز نہیں۔
3۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ لڑکے نے جو الفاظ کہے تھے کہ"اللہ کی قسم اگر ہماری شادی ہوئی تو میں تمہیں مہر میں صرف 10 روپے دوں گا" اس سے یمین منعقد ہوچکی ہے، لہذا مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنے کے بعد زائد مہر دینے کی صورت میں مذکورہ لڑکا حانث ہوجائے گا؛ کیوں کے 10 روپے مہر رکھنا جائز نہیں،اور قسم کا کفارہ دینا لازم ہوگا، قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی جو قیمت ہو وہ دے دے ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو یا اس کی بازار کی قیمت) دے، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو قسم کے کفارے کی نیت سے مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
نیز اگر زائد مہر مقرر کیا ہے تو وہی دینا لازم ہوگا،اور اگر یہی 10 روپے مقرر کئے ہو تو پھر مہر مثل دینا لازم ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"العزل ليس بمكروه برضا امرأته الحرة".
(كتاب النكاح وفيه أحد عشر بابا،الباب التاسع في نكاح الرقيق،فصول في خيار العتق، ج:1، ص:335، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويعزل عن الحرة بإذنها)".
(كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق،مطلب في حكم العزل، ج:3، ص:175، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية."
(کتاب النکاح ،الباب السابع فی المہر،الفصل الاول فی بیان مقدرا لمہر ،ج:1 ،ص: 302، ط: رشیدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا)."
(کتاب النکاح ،باب المہر،ج: 3 ،ص: 101،ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
" الفصل الثاني في الكفارة: وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي .وعن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى إن أدنى الكسوة ما يستر عامة بدنه حتى لا يجوز السراويل وهو صحيح كذا في الهداية . فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات."
(كتاب الطلاق، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:61، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن