بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اذان کے دوران تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھنے کا حکم


سوال

کیا اذان کے دوران دینی جامعہ کا استاد  پڑھا سکتا ہے؟

جواب

 تعلیم وتعلم یا اصلاحی بیان کے دوران اگر اذان شروع ہوجائے، تو  تعلیم وتعلم اور بیان کو روک کر اذان کا جواب دینا افضل ہے، تاہم اگر اذان کے دوران تعلیم وتعلم یا بیان جاری رکھا تو اس کی بھی اجازت ہوگی،  البتہ جلد ہی درس و تدریس اور اصلاحی بیان کو مکمل کرکے نماز کے لیے جانا ضروری ہوگا، کیوں کہ اذان کا قولی جواب دینا مسنون ہے، جبکہ   عملی جواب (نماز کے لیے جانا)  واجب ہے۔ 

خیر الفتاویٰ میں ہے:

’’تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے اگر اذان شروع ہوجائے تو جواب دینا ضروری ہے یا تلاوت جاری رکھے؟“

” اگر تعلیم و تعلّم کے لیے پڑھ رہے ہوں تو قرأت جاری رکھیں اور اگر صرف تلاوت کررہے ہیں تو تلاوت کو روک کر پہلےاذان کا جواب دیں ،فارغ ہو نے کے بعد پھر تلاوت شروع کردیں۔‘‘

(کتاب الصلوۃ، ج:2، ص:230، ط:امدادیہ) 

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(ويجيب) وجوبا، وقال ‌الحلواني ‌ندبا، والواجب الإجابة بالقدم (من سمع الأذان) ولو جنبا لا حائضا ونفساء وسامع خطبة وفي صلاة جنازة وجماع، ومستراح وأكل وتعليم علم وتعلمه،بخلاف قرآن.

وفي الرد:(قوله: بخلاف قرآن) لأنه لا يفوت، جوهرة، ولعله لأن تكرار القراءة إنما هو للأجر فلا يفوت بالإجابة، بخلاف التعلم، فعلى هذا لو يقرأ تعليما أو تعلما لا يقطع سائحاني."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج:1، ص:396، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں