بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

اَعزّہ و اقارب كو جمع كركے قرآن خوانی كرنے كا حكم


سوال

ہمارے یہاں ایک عالم ِدین نے اپنے خاندان والوں کو اطلاع بھیجی  کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کو اس سنیچر کو جمع کرکے اپنے خاندان کے مرحومین کے لیے قرآن ختم کرکے ایصال ِثواب کی مجلس رکھی جائے ، مزید لکھاکہ اس  کے بعد ہمارے تمام مرحومین کے لیے دعا ہوگی اور ساتھ ہی کچھ مرحومین کی فہرست تھی۔

پہلاسوال:

ایسی مجلس جس میں نہ کسی کا  چالیسواں ہےاور نہ کسی کی برسی ہے، البتہ خاندان کو جمع کرکے ان کے مرحومین کے لیے ایصال ِثواب کیا جائے گا، کیا ایسی مجلس  کا انتظام اور اہتمام کرنا شرعاً درست ہے؟

دوسراسوال :

کیا اس صورتِ حال میں دار العلوم دیوبند کا یہ فتوی فٹ آتا ہے، جب لکھتے ہیں عمل کی تخصیص کے متعلق :

"شریعت میں ایصالِ ثواب کے لیے کسی دن یا عمل وغیرہ کی تخصیص ثابت نہیں ، لوگوں نے اپنی طرف سے یہ سب چیزیں گھڑی ہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو ایصال ِثواب کے ان سب طریقوں سے بچنا چاہیے۔"

تیسرا سوال: 

ایک صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت افضل ذکر ہے ، اگر علماء کرام اجتماعی ذکر کی اجازت دے سکتے ہیں تو ایسی قرآن خوانی کا اہتمام زیادہ درست ہے، کیا ایسی قرآن خوانی کا ذکر کی مجالس پر استدلال کرکے بیان جواز درست ہے؟

چوتھا سوال:

اگر مسجد کے امام یا علمائے دین ایسی مجالس میں شرکت کرتے ہیں یا خود منعقد کرتے ہیں  یا پھر ایسی مجلس مسجد میں رکھی گئی ، کیا ایسے عالم کے پیچھے یا ایسی مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے؟

پانچوں سوال:

اگر اندیشہ ہو کہ یہ عمل بعد میں جاکر لوگوں میں رسم بن جائے گی،  اس حالت میں اس کا کرنا   کیساہے؟ 

جواب

1۔واضح رہے کہ قرآنی خوانی باعث ِ اجر و ثواب ہے،  ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی کرنا  جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

1۔شرکت کرنے والوں کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو۔

2۔شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ ہو ۔

3۔قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، قرآنِ کریم کو غلط  نہ پڑھا جائے۔

4۔ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو۔

5۔ قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا گیا تو بھی درست نہیں ہوگا۔

  6۔اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے۔

لہٰذا  صورتِ مسئولہ  میں اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے  تو ایصال ِ ثواب کے لیے قرآن کریم پڑھنے کے لیے جمع ہونا جائز ہے،  لیکن  اگر ان شرائط کا لحاظ نہ کیاگیا تو اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگی۔موجودہ زمانے میں عام طور پر اجتماعی قرآن خوانی میں مذکورہ بالا شرائط نہیں پائی جاتیں اور منکرات و بدعات پائی جاتی ہیں ، اس لیے اجتماعی قرآن خوانی کے بجائے انفرادی طور پر قرآن کی تلاوت کرکے مرحومین کو ایصالِ ثواب کیا جائے    ، اس لیے کہ اس میں اخلاص بھی  زیادہ ہے اور منکرات سے بھی  بچاؤ ہے۔

ایصالِ ثواب کی بہتر و بے غبار صورت یہ ہے کہ جو شخص جب چاہے جہاں چاہے جتنا چاہے قرآن کریم ، درود شریف،  نوافل پڑھ کر  یا کسی غریب مسکین محتاج کی ضرورت پوری کرکے مسجد و  مدرسہ وغیرہ میں ضرورت کا سامان دے کر یہ نیت کر لیا کرے کہ :"یا اللہ اس کا ثواب فلاں فلاں کو پہنچا دیجیے"، اس طرح ایصالِ ثواب میں نہ لوگوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے،  نہ کھانے ناشتہ وغیرہ کا انتظام کرنے کی حاجت ہے اور نہ ہی کسی غیر شرعی امر کے ارتکاب کا خطرہ ہے ۔

2۔مذکورہ فتوی کی عبارت میں دن کی تخصیص و تعیین کے ساتھ ایصالِ ثواب کو ناجائز لکھا گیاہے، جب کہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں دن کی تخصیص نہیں ۔

3۔جس طرح مل بیٹھ کر ذکر کرنا جائز ہے ، اسی طرح جمع ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے بشرط یہ کہ مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ ِ نظر رکھا جائے۔

4۔مذکورہ بالا طریقے سے تمام  تر شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے اگر قرآن خوانی کی گئی   اور اس میں امام ِمسجد یا کسی عالم نے شرکت کی تو  اس کے پیچھے یا ایسی مسجد میں  نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے ۔

5۔اگر کوئی شخص کوئی دن متعین کرکے یا کسی کیفیت کو لازم سمجھ کر قرآن خوانی کرتا ہے تو وہ ناجائز ہے، محض اس بات کے احتمال پر اجتماعی قرآن خوانی کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں اس کیفیت کو لازم سمجھا جائے گا، البتہ وقتًا فوقتًا اس ذہنیت کی تردید کرتے  رہنا چاہیے۔

المنهل العذب المورود شرح سنن أبي داودمیں ہے:

"وروى الدارقطني أن رجلًا سأل النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم فقال: كان لي أبوان ‌أبرهما ‌حال ‌حياتهما فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ فقال له صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم: إن من البر بعد الموت أن تصلي لهما مع صلاتك وتصوم لهما مع صيامك۔"

(کتاب الجنائز،باب القراءة عند الميت: 8 / 259، ط:مطبعة الاستقامة، القاهرة)

سنن أبي داودمیں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "‌ما ‌اجتمع ‌قوم ‌في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم، إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة، وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده۔"

(‌‌أبواب فضائل القرآن،باب في ثواب قراءة القرآن: 2 / 585، ط: دار الرسالة العالمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد» متفق عليه  ... قال القاضي: المعنى من أحدث ‌في ‌الإسلام ‌رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه۔"

(كتاب الايمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الأول:1 / 222، ط: دار الفكر  )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".

(كتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار على المعاصي: 6/ 56، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں