بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بی سی رکھنا کیسا ہے؟


سوال

بی، سی رکھنا کیسا ہے؟

جواب

بی سی اور کمیٹی کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، گویا کمیٹی کے ممبران میں سے ہر ممبر ایک معین رقم قرض دیتا ہے اور قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر قرض دی ہوئی رقم وصول کر لیتا ہے،  اگر تمام ممبران شروع سے آخر تک بی سی میں شریک رہیں اور برابر رقم جمع کرائیں اور انہیں برابر برابر رقم ملے تو یہ نظام شرعاً درست ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔

تاہم بعض جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمیٹی کا چیئر مین کمیٹی کے پیسوں میں سے ہی اپنی دی ہوئی رقم سے کچھ زیادہ وصول کرتا ہے،یا بعض جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس کی بی سی نکل جاتی ہے، وہ آئندہ نہیں دیتا، اس طرح کی بی سی  شرعاً جائز نہیں ہے۔

اسی طرح شریعت کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص قرض دے تو اُس قرض دینے والے کو  یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت اپنی قرض دی ہوئی رقم کا مطالبہ کر لے اگرچہ قرض کی واپسی کے لیے  ایک مدت متعین کر لی ہو؛ لہذا کمیٹی کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت اپنی دی ہوئی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہو گا۔ لہذا اگر شرعی شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے بی سی ڈالی جائے تو جائز ہے اسے حرام کہنا درست نہیں۔

بعض جگہوں پر یہ صورت ہوتی ہے کہ ہر ماہ یا  بی سی کی قسط جمع کراتے وقت قرعہ اندازی ہوتی ہے اور جس کا نام نکلتاہے آئندہ اقساط سے وہ بری الذمہ ہوجاتاہے، یہ صورت ’’قمار‘‘  کے تحت داخل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين"   میں ہے:

"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) ... (القرض) فلا يلزم تأجيله(قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه، لكن قال في الهداية: فإن تأجيله لا يصح؛ لأنه إعارة وصلة في الابتداء حتى يصح بلفظة الإعارة ولا يملكه من لا يملك التبرع كالوصي والصبي، ومعاوضة في الانتهاء فعلى اعتبار الابتداء لا يلزم التأجيل فيه كما في الإعارة إذ لا جبر في التبرع، وعلى اعتبار الانتهاء لا يصح؛ لأنه يصير بيع الدراهم بالدراهم نسيئة وهو ربا اهـ."

( كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل القبض والزيادة والحط فيهما وتأجيل الديون، ۵ / ۱۵۸، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں