بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بی کے بی کمپنی میں انویسٹ کرنا


سوال

بی کے بی کمپنی میں اڈوانس روپے جمع کرنا کیسا ہے؟ جب کہ وہ ماہانہ منافع دیتے ہوں اور منافع کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ" بی کے بی" کمپنی انویسٹمنٹ کے ذریعے چلتی ہے،یہ کمپنی لوگوں کی انویسٹ کردہ رقم سے کرپٹو کرنسی کا کاروبار کر کے لوگوں کو منافع دیتی ہے، جو تقریبا پہلے لیول پر 2.5 فیصد ہوتا ہے،یعنی اگر آپ 100 ڈالر انویسٹ کریں، تو وہ کمپنی آپ کو  روزانہ کی بنیاد پر 2.5فیصد منافع دے گی، اور اس ٹریڈنگ کا پورا ریکارڈ اور منافع کی تفصیل آپ کو دکھا ئےگی، یعنی  کہ آپ کے ڈالر سےکمپنی نے کس کرپٹو کرنسی کو کون سی مارکیٹ میں خریدا اور کون سی مارکیٹ میں بیچا اوریہ کمپنی اپنے ممبرز کو دوسرے ممبرز ایڈ کرنے پریک مشت بونس بھی دیتی ہے، پہلے لیول پر ممبر سے 15 فیصد دوسرے لیول پر پانچ فیصد اور تیسری لیول پر تین فیصد منافع  دیتی ہے، خلاصۂ کلام یہ ہےکہ یہ کمپنی کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتی ہےاور کرپٹو کرنسی یا ڈ یجیٹل کرنسی  یہ ایک فرضی کرنسی  کا نام ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں  ہیں؛ لہذا کرپٹو کرنسی  کی خرید و فروخت کے نام سے  مارکیٹ میں  جو کاروبار چل رہا ہے وہ  حلال اور جائز  نہیں ہے اور نہ ہی کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرنے والی کمپنی  میں  انویسٹ کرنا  جائز  ہے۔

تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :

’’بٹ کوائن محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں   " کوئن" یا   "ڈیجیٹل کرنسی"  کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے   " بٹ کوائن" یا کسی بھی   " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔‘‘

(ج:2،ص:92،بیت العمار)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع، ج: 4، ص: 501، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"وعبارة الصيرفية هكذا سئل عن بيع الخط قال: لا يجوز؛ لأنه لا يخلو إما إن باع ما فيه أو عين الخط لا وجه للأول؛ لأنه بيع ما ليس عنده ولا وجه للثاني؛ لأن هذا القدر من الكاغذ ليس متقوما بخلاف البراءة؛ لأن هذه الكاغذة متقومة."

(کتاب البیوع، فروع فی البیع، ج: 4، ص: 517، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510100607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں