بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بائن کا بائن کے ساتھ لحوق نہیں ہوتا، دوبائن کے بعد دوسری جگہ نکاح جائز ہے


سوال

میرے شوہر نے اپنے دوست کے سامنے کہا "تم گواہ رہنا میں اسے طلاق دیتا ہوں"،  پھر دو گھنٹے بعد مجھے کہا "تم مجھ سے آزاد ہو"، پھر کہا کہ "تم مجھ سے فارغ ہو" اور پھر مجھے گھر سے پکڑ کر نکال دیا، پھر میرے بھائی کو لے جانے کو کہا کہ "اپنی بہن کو لے جاؤ، وہ مجھ سے فارغ ہے"۔

 میرا سابقہ شوہر اپنے باپ کا قاتل ہے اورعدالتوں سے سزا کی بنا پر پاکستان سے مفرور ہے، میں نے عدالت میں کیس بھی داخل کیا تھا اور عدالت نے میرے حق میں فیصلہ بھی دیا ہے،اس کی کاپی بھی میں لگا رہی ہوں، بچوں اور مجھ سے جدا ہوئے تقریبا چار سال ہوئے ہیں، میں سابقہ شوہر کے ساتھ سعودیہ میں رہتی تھی، انہوں نے وہاں طلاق دی اور میں اپنے بچوں کو لے کر پاکستان والد کے گھر آگئی، میری طلاق کے گواہان میری والدہ، بھائی، میرے شوہر کا دوست، دوست کی بیوی سب ہیں،  سب نے تمام گھر والوں کو طلاق کی گواہی دی ہے، پھر میں اپنے والد کے گھر بیٹھی اب میرا دوسرا رشتہ آیا ہے، نکاح سے پہلے میں فتوی لینا چاہتی ہوں،  فتوی دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  سائلہ کے شوہر نے اپنے دوست کے سامنے سائلہ کے بارے میں یہ کہا کہ "تم گواہ رہنا میں اسے طلاق دیتا ہوں"    اور پھر یہ کہا کہ "تم مجھ سے آزاد ہو" تو اس سے سائلہ پر دوطلاقِ بائن واقع ہو چکی تھیں اور نکاح ختم ہو چکا تھا،  اس کے بعد "تم مجھ سے فارغ ہو" کہنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

چوں کہ سائلہ کو شوہر سے جدا ہوئے چار سال کا عرصہ گذر چکا ہے، جس میں سائلہ کی عدت بھی مکمل ہو گئی ہے، لہذا اب سائلہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے،تاہم اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ قانونی تقاضے پورے کر لئے جائیں۔

الدر المختارمیں ہے:

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح... (لا) يلحق البائن (البائن)".

وفی الرد:

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن".

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب الكنايات، 3/ 308- 306، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وهو أن لفظ حرام معناه عدم حل الوطء ودواعيه وذلك يكون بالإيلاء مع بقاء العقد وهو غير متعارف، ويكون بالطلاق الرافع للعقد، وهو قسمان: بائن ورجعي، لكن الرجعي لا يحرم الوطء فتعين البائن، وكونه التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه... والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن

(قوله أنت حرة) أي لبراءتك من الرق أو من رق النكاح وأعتقتك مثل أنت حرة كما في الفتح، وكذا كوني حرة أو اعتقي كما في البدائع نهر".

(أيضاً3/300- 299)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد".

(كتاب الطلاق، فصل:وأما حكم الطلاق البائن3/ 187، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں