بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کی حیات میں اس کی جائیداد میں اولاد کا کوئی حق نہیں


سوال

میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، میرا ایک فلیٹ ہے،  مجھے اپنی بیٹیوں  کی شادی کروانی  ہے۔

1۔ کیا میں اپنا فلیٹ  فروخت  کرکے بیٹیوں کی شادی کرا سکتا ہوں؟

2۔ شرعی طور پر میرے فلیٹ  میں بیٹا اور بیٹیوں کا کتنا حصہ ہے؟

3۔ میرا بیٹا مجھے بہت تنگ کر رہا ہے، کیا میں اسے عاق کر سکتا ہوں؟

جواب

1۔ بیٹیوں کی  شادی کے لیے فلیٹ  فروخت کرنا  جائز ہوگا،یعنی آپ فلیٹ کے مالک ہیں اپنی کسی ضرورت کے لیے فروخت کرسکتےہیں۔

2۔ سائل جب تک حیات ہے، اس کے فلیٹ میں اس کے اکلوتے  بیٹے اور بیٹیوں کا شرعا کوئی حق نہیں، اپنی زندگی میں وہ تمام جائز تصرفات کرنے کا شرعًا حق دار  ہے، اولاد میں سے کسی کو اعتراض کا شرعًا حق نہیں۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"المادة (١١٩٢) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلًا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملًا مضرًّا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه).

كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،3/ 201، ط: دار الجيل)

3۔ جائیداد  سے عاق کرنا شرعًا معتبر  نہیں۔

کفایت المفتی میں ہے:

بیٹے کو عاق کر کے میراث سے محروم کرنا نا جائز ہے

" (سوال) میں اپنے لڑکے مسمی عید و عمرش کو اپنی فرزندیت سے عاق کرنا چاہتا ہوں مجھے کس طرح سے عاق کرنا چاہیے ؟ المستفتی نمبر ۲۵۷۴ 

 (جواب ۵۱۱) جو لڑکا والدین کا نافرمان ہوا انہیں ایذا پہنچائے وہ تو خود ہی عاق ہے، یعنی نافرمان۔ رہا یہ کہ عاق کر دینا یعنی اس کو میراث سے محروم کر دینا تو یہ کوئی شرعی بات نہیں ہے اور نہ شرعا اس کی اجازت ہے اگرچہ عوام میں یہ بات مشہور ہے مگر بے اصل ہے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی."

( کتاب الفرائض، 8/ 365، ط: دار الاشاعت )

امداد الأحكام میں ہے:

عاق اور محروم الارث کرنے کا جو دستور ہے مثلاً والد کہہ دیتا ہے کہ میرے فلاں بیٹے کو میرے ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملے اس کی شرع میں کوئی اصل نہیں ، اس طرح کہنے کے بعد بھی وہ وارث ہو گا ۔ اگر عاق کر دینے کی وجہ سے دوسرے ورثاء نے اس کا حصہ نہ دیا تو وہ گناہ گار ہوں گے ، اس لیے محروم الارث کرنا بالکل فضول ہے، البتہ اگر اپنے نیک بخت بچوں کی زندگی میں ہبہ دے دے اور ہبہ تمام شرائط کے ساتھ پورا کر دے پھر اس فاسق کو کوئی حق نہ ہوگا اور اس ہبہ میں کوئی گناہ نہیں، بلکہ بہتر ہے۔ في العالمكيرية : (ص ۱۰۶۴ ، ۱۰۶۵ - ج /۳) ، ولو كان ولده فاسقا و أراد أن يصرف ماله إلي وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه كذا فى الخلاصة (فتاوى امدادية ص ۱۰۰ ج ٣)  و في الدر المختار ولوكان ولده مسيئاً دون البعض لزيادة أشده لا باس به و لو كانا سواء يجوز في القضاء ولكن هو آثم( مجموعة الفتاوى - مع خلاصة الفتاوى ص ۳۹۳ - ج ٤ )

( كتاب الفرائض، صرف عاق لکھ دینے سے وارث محروم نہیں ہوگا اور فاسق بیٹے کو جائیداد سے محروم کرنے کا طریقہ 4/ 614- 615، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512100621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں