بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بعض ورثاء کا ایک وارث کو میراث میں سے حصہ نہ دینا


سوال

میری نانی کے ترکہ میں سے میری والدہ مرحومہ کو زمین کی صورت میں حصہ ملا تھا، والدہ مرحومہ کا انتقال 2007ء میں ہوا، ان کے ورثاء میں شوہر، دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، ان کے بعد میرے والد کا ابھی ایک سال قبل انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے(مرحوم کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے)، والد مرحوم کے انتقال کے بعد میری والدہ کی زمین  میرے بھائی اور بہن نے مجھے بتائے بغیر ہی فروخت کردی، اور دونوں نے اس کے پیسے لے لئے(بہن نے آٹھ لاکھ، بھائی نے دو لاکھ  روپے وصول کئے)، میرا بھائی ان پیسوں کو لے کر ایران چلا گیا ، اور وہاں پر بھی میری والدہ مرحومہ کی ایک زمین(قیمت پندرہ لاکھ) تھی، اس کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، جب میں نے حصہ کا مطالبہ کیا، تو کہا کہ آپ کا یہاں(ایران والی زمین) میں کوئی حصہ نہیں ہے، میں نے بہن کو آٹھ لاکھ روپے دے دیئے ہیں، اس سے حصہ لے لو، جب میں نے اپنی بہن سے ا س کا مطالبہ کیا تو وہ مجھ سے لڑنے لگی اور یہ کہنے لگی کہ جہاں بھی مجھے بلاؤ، میں نہیں آؤں گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا ایران والے گھر میں شرعًا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ کیا ان کا یہ عمل شریعت کے مطابق ہے؟ اب وہ مجھے حصہ نہیں دے رہے ہیں، میں کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کے تمام  ترکہ میں تمام اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر کسی بھی وارث کا قبضہ کرلینا اور دیگر ورثاء کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا یا مقررہ حصے سے کم دینا ناجائز اور سخت گناہ ہے،حدیثِ مبارک میں اس پر  سخت وعیدیں آئی ہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی اور بہن کا والدہ  مرحومہ کی زمین  پر  سائل کی رضامندی کے بغیر قبضہ کر کے اس کو بیچنا شرعًا جائز نہیں تھا، اب چونکہ دونوں نے گھر  بیچ دیا ہے، لہذا دونوں پر  مذکورہ گھر سے ملنے والی رقم   آپس میں (یعنی دونوں بھائیوں اور بہن  کے درمیان )شرعی حصوں کے  مطابق تقسیم کرنا اور ہر ایک کو اس کا شرعی حصہ دینالازم ہے، ایک بھائی اور بہن کا آپس میں رقم تقسیم کرکے ایک بھائی (سائل) کو محروم کرنا ناجائز ہے ۔ نیز سائل کی والدہ کی وہ زمین جو کہ ایران میں ہے، اور سائل کے بھائی نے اس پر قبضہ کرلیا ہے، اس میں بھی سائل اور اس کی بہن کا حصہ بنتا ہے، لہذا بھائی پر اس زمین یا اس کی قیمت   کو بھی تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا، اگر سائل کے بھائی بہن سائل کو حصہ نہیں دیں گے تو وہ سخت گناہ گار ہوں گے، اور آخرت میں بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شرعی اعتبار سے سائل کی والدہ مرحومہ کے تمام ترکہ کی تقسیم  کا طریقہ درج ذیل ہے:

سب سے پہلے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحومہ کے ذمے کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد اور اگر مرحومہ نے کوئی  جائز وصیت  کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ5 حصوں میں تقسیم کر کے ہرایک بیٹے کو 2،2حصے اور بیٹی کو 1 حصہ دیاجائے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحومہ (والدہ):5

بیٹابیٹابیٹی
221

یعنی سو فیصد میں سے مرحومہ کے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 40 فیصد اور بیٹی کو 20 فیصد ملے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

ترجمہ:" حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

(باب الغصب والعاریة، ‌‌الفصل الأول، ج:1، ص:254، ط: قدیمی)

وفیه أیضًا:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة». رواه ابن ماجه."

ترجمہ:"  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

 (باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں  ہے:

"الإرث جبري لايسقط بالإسقاط."

 (كتاب الدعوى، ج:8، ص:116، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں