بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی پرورش کا حق کس کو ہے ؟


سوال

میں گزشتہ چند سالوں سے اپنی اہلیہ سے علیحدہ ہوں ،میری اہلیہ اپنے کاروباری پارٹنر کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتی تھی اور بار بار منع کرنے کے باوجود باز نہ آئی، جس پر میں نے اسے گھر سے نکال دیا۔

میرے دو بیٹے ہیں، جن کی عمریں سات اور پانچ سال ہیں وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئی اور اب اسی غیر محرم شخص کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ رہی ہے۔ میں نے عدالت میں بچوں کی حوالگی کے لیے مقدمہ دائر کیا، جس پر عدالت نے بچوں کو میرے حوالے کر دیا، لیکن بعد میں میری اہلیہ نے ایک اور عدالت سے رجوع کیا جس نے بچوں کو اس کے سپرد کرنے کا حکم دے دیا۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا شرعی طور پر ایک ایسی ماں، جو غیر محرم مرد کے ساتھ رہ رہی ہو، بچوں کی پرورش کا حق رکھتی ہے؟ جبکہ وہ نامحرم شخص میرے بچوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی ہے، اور اس صورتِ حال کا ان کی تربیت پر منفی اثر پڑنے کا بھی خدشہ ہے۔ کیا مجھے شرعی طور پر بچوں کی تحویل میں لینے کا حق حاصل ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق ہو جانے کی صورت میں بچوں کی پرورش کے متعلق شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ: اگر بچہ ہو تو سات سال کی عمر تک، اور اگر بچی ہو تو نو سال کی عمر تک، ماں کو اس کی پرورش کا حق حاصل ہوتا ہے۔ مذکورہ مدت مکمل ہونے کے بعد باپ کو بچے کو اپنی تحویل میں لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔
نان و نفقہ کی ذمہ داری بچے کے بالغ ہوکر کمانے کے قابل ہونے تک، اور بچی کی شادی ہونے تک، باپ کے ذمہ ہی رہتی ہے، خواہ بچہ یا بچی ماں کے پاس رہے یا باپ کے پاس۔ 
تاہم، اگر ماں کسی ایسے شخص سے نکاح کر لے جو بچی کے لئے غیر محرم(اجنبی)  ہو، تو اس صورت میں اس کا حقِ پرورش ساقط ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی اور شرعی وجہ ایسی پائی جائے جو حقِ پرورش کو ختم کر دینے والی ہو، تو ماں کا یہ حق ختم ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں پرورش کا حق بالترتیب نانی، پرنانی، دادی، پردادی، بہن، خالہ اور پھوپھی کو منتقل ہوگا، باپ کو پھر بھی مذکورہ مدت گذرنے سے پہلے بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
لہٰذاآپ کے بڑے بیٹے کی عمر سات سال ہو چکی ہے اس کی حضانت کا حق ماں سے ختم ہو کر والد کو منتقل ہو گیا ہے۔ جبکہ چھوٹا بیٹا پانچ سال کا ہے اور اصولی طور پر ماں کے پاس رہ سکتا تھا، مگر چونکہ وہ غیر محرم کے ساتھ رہ رہی ہےاس کا یہ حق بھی ساقط ہو چکا ہے۔ اب حضانت کا حق پہلے نانی، پھر خالہ، پھر دادی، اور پھر پھوپھی کو دیا جائے گا۔ اگر ان میں سے کوئی اہل نہ ہو، تو والد بچوں کی پرورش کا حق دار ہوگااور اسے اپنے بچے واپس لینے کا شرعاً حق ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

«(تثبت للأم)النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة) (إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا....(أو غير مأمونة)ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا....(أو متزوجة بغير محرم) الصغير (أو أبت أن تربيه مجانا و) الحال أن (الأب معسر، والعمة تقبل ذلك) أي تربيته مجانا ولا تمنعه عن الأم قيل للأم: إما أن تمسكيه مجانا أو تدفعيه للعمة....(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار.

(قوله: تثبت للأم) .....قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ....والمراد بكونها أمينة أن لا يضيع الولد عندها باشتغالها عنه بالخروج من منزلها كل وقت.....(قوله: ما لم يعقل ذلك).....والحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل فينزع منها كالكتابية. (قوله: بأن تخرج كل وقت إلخ) المراد كثرة الخروج، لأن المدار على ترك الولد ضائعا والولد في حكم الأمانة عندها، ومضيع الأمانة لا يستأمن، ولا يلزم أن يكون خروجها لمعصية حتى يستغني عنه بما قبله فإنه قد يكون لغيرها؛ كما لو كانت قابلة، أو غاسلة، أو بلانة أو نحو ذلك، ولذا قال في الفتح: إن كانت فاسقة أو تخرج كل وقت إلخ فعطفه على الفاسقة يفيد ما قلنا فافهم.....(قوله: أو تزوجت بأجنبي) أشمل من ذلك قول البحر، أو لم تكن أهلا للحضانة فإنه يدخل ما لو كانت فاجرة، أو غير مأمونة.» 

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: من555 إلى 563 ، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے  :

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي."

(كتاب الطلاق ،الباب السادس عشر في الحضانة ،ج : 1 ،ص :564  ،ط :دار الكتب العلمية )

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب .... (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواي(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(كتاب الطلاق ،باب الحضانة ،ج :3 ،ص :566 ،ط :سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں