بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی کا نام "ام رومان" رکھنا


سوال

بچی کا  "ام رومان" نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

"ام رومان" ایک نیک سیرت صحابیہ تھیں، مکہ میں ایمان  لائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیعت کی، مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی، اور مدینہ  منورہ ہی میں وفات پائی، "ام رومان" حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ  اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ  محترمہ کی کنیت ہے،  لہذا ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے  بچی کا نام "ام رومان"  رکھنا درست ہے۔

الطبقات الكبیر میں ہے:

"وعبد الرحمن وعائشة وأمهما ‌أم ‌رومان بنت عامر بن عويمر بن عبد شمس بن عتاب بن أذينة بن سبيع بن دهمان بن الحارث بن غنم بن مالك بن كنانة، ويقال بل هي ‌أم ‌رومان بنت عامر بن عميرة بن ذهل بن دهمان بن الحارث بن غنم بن مالك بن كنانة".

(أبو بكر الصديق، ج:3، ص:155، رقم:68، مكتبة الخانجي)

الاستيعاب في معرفۃ الاصحاب للنمری القرطبی میں ہے:

"‌‌(4152) أم رومان. يقال بفتح الراء وضمها- هي بنت عامر بن عويمر بن عبد شمس بن عتاب بن أذينة بن سبيع بن دهمان بن الحارث بن غنم بن مالك ابن كنانة  هكذا نسبها مصعب، وخالفه غيره، والخلاف من أبيها إلى كنانة كثير جدا، وأجمعوا أنها من بني غنم بن مالك بن كنانة. امرأة أبي بكر الصديق، وأم عائشة، وعبد الرحمن ابني أبي بكر رضي الله عنهم. توفيت في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذلك في سنة ست من الهجرة، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم قبرها، واستغفر لها، وقال: اللهم لم يخف عليك ما لقيت أم رومان فيك وفي رسولك. وروي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: من سره أن ينظر إلى امرأة من الحور العين فلينظر إلى أم رومان".

(ام رومان، ج:4، ص:1935، ط:دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں