(1) بچی کا نام ارم رکھنا کیسا ہے؟ اور اس کے کیا معنی ہیں ؟
(2) بچی کا نام ماہین (Maheen) رکھنا کیسا ہے؟ اور اس کے کیا معنی ہیں ؟
"اِرَم" کے مختلف معانی ہیں:
(1) قوم عاد کا جدِ اعلیٰ (2) قوم عاد کا شہر (3) بہشت (جنت) جسے شدادِ عاد نے ملکِ صنعاء اور حضرموت کے درمیان بنایا تھا، اور اس کے علاوہ یہ تباہ شدہ قوم جس کی ایک شاخ عاد ہے کو بھی کہتے ہیں۔
(القاموس الوحید ،120،ادارہ اسلامیات)
لہذا بعض معانی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے، لیکن چوں کہ تباہ اور ہلاک شدہ قوموں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس کے بجائے دیگر اچھے اور بامعنی نام رکھے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
"ماہین" کو بعض حضرات نے ماہ کی طرف منسوب کرکے یہ معنیٰ بیان کیا ہے: چاند کی مانند، حسین و جمیل خاتون ، اس اعتبار سے یہ نام رکھ سکتے ہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ صحابیات یا نیک خواتین کے نام پر نام رکھے جائیں۔
ماہین: منسوب به ماه
ماه: (بہ مجاز) زیبا و قشنگ، دوست داشتنی، دختر زیباروی
(بہ مجاز) زیبا رو، درخشان و نورانی۔
تاج العروس میں ہے :
"(و) {إرَمُ} وأَرامٌ (كَعِنَبٍ وسَحابٍ: والِدُ عادٍ الأولىَ، أَو الْأَخِيرَة، أَو اسمُ بَلْدَتِهِم) الَّتِي كَانُوا فِيهَا، (أَو أُمِّهِم أَو قَبِيلَتِهِم) . مَنْ تَرَكَ صَرْفَ إِرَم جعله اسْما للقبيلة، (و) فِي التَّنْزِيل: {بعاد إرم ذَات الْعِمَاد} ، قَالَ الجوهريّ: من لم يُضِفْ، جعل إِرَمَ اسْمَه وَلم يَصْرِفْه، لأنّه جعل عادًا اسمَ أَبِيهم، وَمن قَرَأَهُ بالإضافَة وَلم يَصْرِفْه جعله اسمَ أُمِّهم أَو اسمَ بَلْدَة. وَقَالَ ياقوتُ - نَقْلاً عَن بَعضهم -: إِرَمُ لَا ينْصَرف للتَّعْرِيف والتَّأْنِيث لأنَّه اسمُ قَبِيلَة، فعلى هَذَا يكونُ التقديرُ: إِرَم صاحبِ ذَات العِمادِ، لأنّ ذَات العمادِ مدينةٌ، وَقيل: ذاتُ العِمادِ وصفٌ، كَمَا تَقول: القَبِيلَةُ ذاتُ المُلْك، وَقيل: إِرَمُ مدينةٌ، فعلى هَذَا يكون التَّقْدِير بعادٍ صاحبِ إِرَمَ. ويقرأُ: بِعادِ إِرَمَ ذاتِ العِماد، بالجَرّ على الْإِضَافَة. ثمَّ اختُلِف فِيهَا، مَنْ جعلهَا مَدِينَة، فَمنهمْ من قَالَ هِيَ أَرْضٌ كَانَت وانْدَرَسَتْ، فَهِيَ لَا تُعْرَف، وَقيل: (دِمَشْق) وَهُوَ الأكْثَر، وَلذَلِك قَالَ شبيبُ بن يَزِيدَ بنِ النُّعْمان بنِ بَشِير:
(لَوْلا الَّتي عَلِقَتْنِي من عَلائِقها ... لَمْ تُمْسِ لي إِرَمٌ دَارا وَلَا وَطَنا)
قَالُوا: أَرَادَ دِمَشْقَ، وَإِيَّاهَا أَرَادَ البُحْتَرِيُّ بِقَوْلِه:
(إِلَى إِرَمٍ ذاتِ العِماد وإنّها ... لَمَوْضِعُ قَصْدِي مُوجِفًا وَتَعَمُّدِي)
(أَو الإسْكَنْدَرِيّة) . وَحكى الزمخشريُّ: أنّ إِرَمَ بلدٌ مِنْهُ الإٍ سكندريّة. ورَوَى آخَرُونَ: أنّ إِرَمَ ذَات العِمادِ باليَمَنِ بَين حَضْرموتَ وَصَنْعاءَ من بِناءِ شَدّادِ بن عَاد، وذَكَرُوا فِي ذَلِك خَبرا طَويلا لم أذكرهُ هُنَا خشيَة المَلالِ والإطالَة".
(31/ 206،دار إحياء التراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101986
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن