بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بچوں کا زندگی میں جائیداد میں سے حصہ کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

میری پانچ بیٹیاں ہیں،  اور تین بیٹے ہیں،  پانچ بیٹیوں میں سے تین بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، اور دو بیٹیوں کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی،  بیوی کا انتقال بھی ہو چکا ہے،  اب میرے بچے مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ میں اپنی جائیداد ان کے درمیان تقسیم کر دوں،  تو کیا شرعی طور پر مجھے فی الحال اپنی جائیداد ان پر تقسیم کرنا ضروری ہے،  اور اگر میں یہ کر لوں کہ مکان فروخت کر کے بچوں کو رقم دے دوں اور اپنے لیے کچھ رکھ لو تو کیا یہ درست ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ صاحب جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا تنِ تنہا  مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، اولاد وغیرہ کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز  والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے یعنی جتنا بیٹے کو دیا ہے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے ورنہ گناہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» وفي رواية قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»"  

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الهبة، باب العطایا، ج:1، ص:261، ط:قدیمي کتب خانہ)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں آپ پر زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا شرعا لازم نہیں ،البتہ اگر اپنی خوشی و رضامندی سےاپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لئے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقت ضرورت کام آئے ، اس کے بعد باقی جائیداد اپنی تمام اولاد کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، البتہ کسی بیٹے کویا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بناء پر مثلاً اس کی کثرت شرافت ودینداری کے یا غریب ہونے کی بناء پر یا زیادہ خدمت گزرا ہونے کی بناء بنست اوروں کے کچھ زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور جس کو جو دے اس پر اسے قبضہ اور تصرف بھی دیدے، صرف نام کردینا کافی نہیں ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری (فتاویٰ ہندیہ) میں ہے:

"لو وهب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار  ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ".

(كتاب الهبة ، الباب السادس فى الهبة للصغير، ج:4، ص:391، ط: مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں