بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے نام رکھنے کے آداب / رفاء ،ازوی، افزا، زوہان، فلزا نام رکھنا


سوال

 کیا یہ نام رکھ سکتے ہیں رفاء ،ازوی، افزا ،زوہان ،فلزا؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا ، اور جن ناموں کے معنی اچھے نہیں ہیں ان کو رکھنے سے منع کیا،  خود رسول اللہ ﷺ  نے بہت  سے بچوں  اور بڑوں کے ایسے نام جن کے معنی اچھے نہیں ہوتے ان کو  تبدیل کرکے اچھے معنی والے نام رکھ  دیے؛   لہذا   نام کے اچھا اور بامعنی ہونے کا انسان کی شخصیت پر  اثر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے،  لیکن پیدائش کے دن اور تاریخ کا حساب کرکے یا ستاروں کی مناسبت سے نام رکھنے کا اہتمام کرنا اور اس سے نام کا انسانی شخصیت پر بھاری ہونا یا اس کے اچھا اثر ہونے کا عقیدہ رکھنا یہ  خلافِ شریعت عقائد  میں سے ہے، یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے، ایسی کوئی بات شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

نیز نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار  یہ نہیں ہے کہ وہ نام پسند آجائے، بلکہ اچھا ہونے کی بنیاد  شریعت کی نظر میں اس نام کا اچھا ہونا ہے، فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ بچوں کا ایسا نام رکھنا جو اللہ نے اپنے بندوں کا نہیں لیا اور نہ اس کو رسول اللہ ﷺ نے ذکر کیا اور نہ اس کو مسلمانوں نے استعمال کیا ہو یعنی مسلمانوں کا اس نام کے رکھنے کا تعارف نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ ایسا نام نہ رکھا جائے۔

"و في الفتاوى: التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده و لا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه، و الأولى أن لايفعل، كذا في المحيط".

(فتاوی عالمگیری 5/362 )

لہذا نام رکھنے کا ادب یہ ہے کہ اس میں نیک لوگوں کی نسبت ملحوظ ہو مثلاً انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا نیک مسلمانوں کے نام پر ہو، یا وہ اچھا بامعنی لفظ ہو، اور اس نام سے اسلامی تشخص جھلکتا ہو۔

آپ نے جن نام سے متعلق سوال کیا ہے، ان میں سے  ’’فلذہ‘‘  (ذال کے ساتھ) کے معنی ہیں :’’ جگر، گوشت کا ٹکڑا ، سونے اور چاندی کا ٹکڑا، (ج: فلذ، افلاذ) ، اور (زا کے ساتھ) الفلز کے معنی : ’’ایک کیمیاوی عنصر جس میں معدنیاتی چمک اور حرارت و بجلی  کو منتقل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، چمک دار دھات، بھاری اور سخت مضبوط   آدمی۔

فلذہ  ( ذال کے ساتھ) FILZA  لڑکی کانام رکھنا درست ہے۔

اور ”رِفاء“ :   کے معنی اتحاد واتفاق کے ہیں،  یہ نام رکھنا بھی جائز ہے۔

”ازویٰ “کے معنی : جمع کرنا، قبضہ کرنا ، ایک طرح کرنا، مال اکٹھا کرنا، راز پوشیدہ رکھنا  ہیں، یہ نام رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن بہتر  نہیں ہے۔

”افزا“ فارسی کا لفظ ہے، اردو میں بھی مستعمل ہے، اس کا معنی ہے "بڑھانا"، دیگر کلمات کے ساتھ جوڑ کر اسے استعمال کیا جاتاہے، مثلًا: "صحت افزا" یعنی صحت کے لیے مفید، یا صحت بڑھانے والا۔ یہ نام رکھنا جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ بچی کا نام رکھنا ہے تو کسی صحابیہ رضی اللہ عنہا کے نام پر نام رکھا جائے۔

اور ”زوہان“ کے معنی کسی مستند لغت میں نہیں مل سکے۔

نیز ہماری ویب سائٹ کے سرور ورق پر اسلامی ناموں کے سیکشن میں حروف تہجی کی ترتیب سے لڑکوں اور لڑکیوں کے منتخب نام موجود ہیں، جنس اور حرف کا منتخب کرکے نام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ جس کا لنک درج ذیل ہے:

اسلامی نام

المعجم الوسيط - (2 / 700):

"( الفلذة ) القطعة من الكبد واللحم والذهب والفضة ( ج ) فلذ وأفلاذ وأفلاذ الأكباد الأولاد وأفلاذ الأرض كنوزها.
( الفولاذ ) نوع من الصلب متين جدا ويصنع بخلط الصلب بعناصر أخرى ( مج ).
( المفلوذ ) سيف مفلوذ مطبوع من الفولاذ.
( الفلز )
عنصر كيماوي يتميز بالبريق المعدني والقابلية لتوصيل الحرارة والكهربا ومن الرجال الشديد الغليظ الصلب تشبيها له بها والبخيل المتشدد تشبيها له بها ليبسه أو لبعده عن طالبيه والضريبة تجرب عليها السيوف."

لسان العرب (1 / 87):

"الرِّفاءُ: الالتئامُ والاتِّفاقُ والبَرَكةُ والنَّماءُ."

تاج العروس (38 / 227):

"{زَوَى (سِرَّهُ عَنهُ) : إِذا (طَواهُ. (و) زَوَى (الشَّيءَ) يَزْوِيه زَيّاً: (جَمَعَهُ وقبَضَهُ) .  وَفِي الحدِيثِ: (} زُوِيَتْ لي الأَرْضُ فأُرِيتُ مَشارِقَها ومَغارِبَها) . وَمِنْه زَوَى مَا بينَ عَيْنَيْه: أَي جَمَعَهُ؛ قالَ الأعْشى: يَزيدُ يغُضُّ الطَّرْفَ عنِّي كأنَّما.

{زَوَى بينَ عَيْنَيْه عليَّ المَحاجِمُ (} والَزَّاوِيَةُ من البَيْتِ: رُكْنُه) ، فاعِلَةٌ من {زَوَى} يَزْوِي إِذا جمع لأنَّها جَمَعَتْ قطراً مِنْهُ، (ج {زَوايا) . يَقُولُونَ: كم فِي} الزَّوايا مِن خَبَايا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں