سات سال کےبچوں کو شرارت کرنے پرمسجد سے دھکے دے کر بھگانے کا اختیار کس کے پاس ہے ؟اور بچے کا بغاوت کر کے مسجد سے منہ موڑنا اس کا گناہ کس پر ہے؟ اب اگر مسجد کو سکون کی جگہ بنانا ہے تو سب کو بھگانے سے ہی سکون ملے گا!
شریعت میں سات سال کے بچوں کو نماز کی ترغیب دینے کا حکم ہے،لہذا سات سال کی عمر کے بچوں کو نرمی اور حکمت کے ساتھ مسجد لا کر انہیں نماز کا عادی بنانا چاہیے،اور شرارت کرنے والے بچوں کو سختی سے دھکے دے کر نکالنا کسی کے لیے جائز نہیں، بلکہ انہیں نرمی اور حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے۔اگر بچہ بڑے ہونے کے بعد مسجد سے دور ہو جائے تو اس کا گناہ اسی پر ہے، البتہ بےجا سختی کرنے والے بھی عنداللہ پکڑکے مستحق ہو سکتے ہیں۔ مسجد کے وقار اور سکون کو برقرار رکھنے کے لیے حکمت، شفقت اور درست تربیت کا طریقہ اختیار کیا جائے، نہ کہ سب کو نکالنے کا۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع۔
ترجمہ:نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں (اور نہ پڑھیں) تو انہیں (نرمی سے) مارو، اور ان کے سونے کے بستروں کو الگ کر دو۔
(کتاب الصلاۃ،باب متى يؤمر الغلام بالصلاة،رقم الحدیث:495ج:1،ص:242،ط:البشریٰ)
سنن ابنِ ماجہ میں ہے:
عن واثلة بن الاسقع رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم ،وشراركم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع اصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على ابوابها المطاهر، وجمروها في الجمع.
ترجمہ:نبی کریم ﷺنے فرمایا:اپنی مساجد کو بچوں، دیوانوں، برے لوگوں، خرید و فروخت، جھگڑوں، بلند آوازوں، سزائیں نافذ کرنے اور تلواریں کھینچنے سے دور رکھو، اور ان کے دروازوں پر وضو خانے بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکایا کرو۔
(ابواب المساجد والجماعات،باب ما يكره في المساجد،رقم الحديث: 750ج:1ص:104ط: مكتبه لدهيانوى)
مسند أبي يعلى الموصلي میں ہے:
عن أنس بن مالك، قال: قال لى رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس، أسبغ الوضوء يزد في عمرك، سلم على من لقيت من أمتى تكثر حسناتك، وإذا دخلت بيتك فسلم على من لقيت من أهل بيتك يكثر خير بيتك، وصل صلاة الضحى، فإنها صلاة الأوابين قبلك"، وقال: "يا أنس، ارحم الصغير، ووقر الكبير، وكن من رفقائى".
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے انس! وضو خوب اچھی طرح کرو، اس سے تمہاری عمر میں اضافہ ہوگا۔ میری امت میں جس سے بھی ملو، اسے سلام کرو، اس سے تمہاری نیکیاں بڑھیں گی۔ اور جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، اس سے تمہارے گھر میں بھلائی زیادہ ہوگی۔ اور چاشت کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ یہ رجوع کرنے والوں کی نماز ہے جو تم سے پہلے تھی۔ پھر فرمایا: اے انس! چھوٹے پر رحم کرو، بڑے کی تعظیم کرو، اور میرے ساتھیوں میں شامل ہو جاؤ۔
(مسند أنس بن مالك رضي الله عنه،أبو عمران الجونى، عن أنس،ج:6،ص:107،ط:دار الحديث - القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100344
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن