بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے بالوں کے برابرسونا یا چاندی صدقہ کرنا


سوال

بچوں کے سر کے بال کے برابر چاندی یا سونا صدقہ کرنا چاہیے؟

جواب

 بچے کی پیدائش کے بعد اس کے بارے میں شریعت کے درج ذیل احکام ہیں:

1۔تحنیک کروانا:یعنی  کھجور وغیرہ کو کوئی بزرگ چبا کر اپنے دانتوں سے نرم کردے، پھر اسے بچے کے تالوپر لگادیا جائے، تاکہ بچے کے منہ میں ابتدا میں ہی غذا کے ساتھ کسی بزرگ کا لعاب چلا جائے۔

2۔عقیقہ اور اس کا جانور:عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ’’عقیقہ‘‘ کی برکت سے بچہ کے اُوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں،عقیقہ میں لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کیا جائے، پھر بہتر  یہ ہے کہ بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن عقیقہ کردیا جائے،اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو تو  پھر چودہویں دن، ورنہ اکیسویں دن، اگر اِن دِنوں میں عقیقہ نہ کرسکے، تو عمر بھر میں کسی بھی دن میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے، البتہ بہتر ہے کہ جب بھی عقیقہ کیا جائے، پیدائش سے ساتویں دِن کا لحاظ کیا جائے۔

3۔ سر  کے بال کاٹنااور  اس كے برابر چاندی صدقہ کرنا:عقیقہ کے دن نومولود کے سر کے بال کاٹ دینے کے بعد بالوں کے ہم وزن  چاندی یا اس کے وزن کے بقدر رقم  صدقہ کرنا مسنون ہے،جیساکہ ترمذی کی روایت میں حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: فاطمہؓ! اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔

4۔ نام رکھنا: بہتر ہے کہ جس دن عقیقہ کیا جائے اسی دن بچے کا اچھا سا نام بھی رکھ دیا جائے۔  

لہذا صورتِ مسئولہ میں  بچے کی پیدائش کے ساتویں دن بال کاٹنا اور بالوں کے برابر چاندی یا سوناصدقہ کرنا یا اس کے وزن کے بقدر رقم صدقہ کرنا مسنون ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

" عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه ‌يوم ‌السابع، ويسمى، ويحلق رأسه" حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.: هذا حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة ‌يوم ‌السابع، فإن لم يتهيأ ‌يوم ‌السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم حاد وعشرين، وقالوا: لا يجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية" 

(باب العقیقة بشاۃ ،ج:4،ص:99،ط:حلبی مصر)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق ‌عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم"

( کتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:336،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں