ایک عورت کی شادی ہوئی اور شادی کو تقریباً چار سال ہوئے ،ایک بچی بھی ہے تین سال کی، میاں بیوی کا کوئی اختلافی مسلہ چل رہا تھا، اچانک لڑکی کے والد آ گئے اور اس کو اپنے گھر لےگئے، اب یہ عورت تقریبا دوسال سے اپنے والد کے گھر میں رہی ہے، اور وہ شوہر سے خلع لینا چاہتی ہے، سوال یہ ہےکہ کیا عورت شوہر کو پورا مہر جو کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار زیور کی صورت میں ہے (شوہر کو واپس کرے یا آدھا واپس کرے جو کہ شوہر کے گھر میں چھوڑ کر آئی ہے) کتنا مہر واپس کرنا ضروری ہے ؟دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ عورت بچی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے، جب کہ شوہر کی شرط یہ ہےکہ اگر مجھےبیٹی دی جائے تو طلاق دوں گا، ورنہ نہیں تو کیا یہ شرط لگانا شوہر کے لئے جائز ہے یا نہیں، اور اس شرط پر عمل کرنا کس حد تک ضروری ہے ؟
واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔
صورت مسئولہ میں اگرشوہر قصوروار نہیں ہے اور بیوی بلاوجہِ شرعی خلع لینا چاہ رہی ہے تو ایسی صورت میں شوہر کو خلع پر مجبور کرنا جائز نہیں، البتہ اس کے باوجود اگر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کر لیا تو خلع ہو جائے گااور شوہر بدلِ خلع کا مالک بن جائے گا،اگر میاں بیوی کی رضامندی سے خلع ہوا تو اس میں جو عوض طے ہو وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا ذمے میں لازم ہوگا، اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو اور شوہر نے اب تک مہر ادا نہ کیا ہو تو شوہر پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا اور اگر شوہر نے مہر ادا کر دیا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، ورنہ جس چیز کے عوض خلع کیا گیا ہو اس کی ادائیگی بیوی کے ذمے لازم ہو گی،البتہ بیوی کے مہر یا اس کو دیے ہوئے مال سے زیادہ کا مطالبہ کرنا شوہر کی طرف سے خلاف اولیٰ ہے، نیز شوہر کا یہ شرط رکھنا کہ بیٹی مجھے دوگے تو طلاق دوں گایہ شرط جائز نہیں ، یہ شریعت کے خلاف ہے،اس لیےکہ زوجین کے درمیان جدائی ہونے کی صورت میں ضابطہ یہ ہےکہ بچے کی عمر سات سال ہونے تک اور بچی کی عمر نو سال ہونے تک ، ان کیپرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے اس کے بعد والدکو بچوں کی پرورش کاحق حاصل ہوتاہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.
(بابالحضانة، ج:3،ص:566،ط:سعيد)
سنن أبي داود میں ہے:
عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة».
( باب الخلع،ج:1، ص:310، ط؛ حقانیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القَبول."
(کتاب الطلاق،فصل فی الخلع ,ج:3،ص:145،ط:دارالکتاب العربی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره) تحريمًا (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق." (قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا. والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا - {فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: 20]- إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي: أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال: ثم رخص بعد، فقال - {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- قال فنسخت هذه تلك اهـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت اهـ أي سواء كان النشوز منه أو منها، أو منهما. لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع، وبقوله تعالى - {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة: 231]- وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم (قوله: ويلحق به) أي بالأخذ (قوله: إن نشز) في المصباح نشزت المرأة من زوجها نشوزا من باب قعد وضرب عصته. ونشز الرجل من امرأته نشوزا بالوجهين: تركها وجفاها، وأصله الارتفاع اهـ ملخصا (قوله: ولو منه نشوز أيضا) لأن قوله تعالى - {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى (قوله: وبه يحصل التوفيق) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير، وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال: وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى، والمنع محمول على الأولى. اهـ. ومشى عليه في البحر أيضا."
(کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:3، ص:445، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100986
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن