ہمارا کام جوتوں پر ایلفی لگانے کا ہے، ایلفی لگاتے وقت ہم دستانے یا دوسرے ذرائع استعمال نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے اکثر اوقات ایلفی ناخنوں کے بیچ میں رہ جاتی ہے جس کو صاف کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، حتی کے ناخنوں سے خون نکل آتا ہے،اکثر دو تین دن بعد ایلفی کا کچھ اثر ہمیں نظر آتا ہے، ہمیں یہ مسئلہ بیس سال سے درپیش ہے، اس عرصے میں ہم نے جو وضو یا غسل کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟اس عرصے میں ہم نے جتنی نمازیں پڑھی ہیں اس کا کیا حکم ہے؟صفائی کی حد کتنی ہونی چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل جس جگہ ملازمت کررہا ہے اس میں سائل وغیرہ کا کام جوتوں پر ایلفی لگانے کا ہے تو ایسی صورت میں اگر ناخنوں کے درمیان کھال میں ایلفی لگ جائے تو حتی الامکان اسے دورکیا جائے؛ تاکہ پانی کھال تک پہنچ جائے، لیکن اگر پوری کوشش کے بعد بھی مکمل طور پر ایلفی جسم سے علیحدہ نہ ہو بلکہ چپکی رہے اور زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال اترنے کا یا زخم بن جانے کا اندیشہ ہوتا ہے تو جس قدر ایلفی ہٹ سکے اسے ہٹا لے اور وضو/ غسل کرکے نمازادا کرلے، اس میں کوئی حرج نہیں ، لہذا جتنے عرصےسے سائل یہ کام کررہا ہے اور واقعۃًمکمل کوشش کے ساتھ ناخنوں کے درمیان لگی ایلفی کو ہٹاکر وضو/ غسل کرتا رہا ہے ، تو ایسی صورت میں سائل کا وضو / غسل ہوچکا تھا، لہذا اس سے جتنی نمازیں پڑھی ہیں وہ ادا ہوگئیں، ان کا لوٹانا ضروری نہیں ۔
البحر الرائق میں ہے:
"ولو لصق بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز.........والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتهما سقطت."
(كتاب الطهارة، أركان الطهارة، ج:1، ص:14، 237، ط: دار الكتاب الاسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال: كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم؛ إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي."
(كتاب الطهارة، الباب الأول، الفصل الأول، ج:1، ص:4، ط: دار الفكر)
مجمع الانھر میں ہے:
"(ويعفى أثر شق زواله) بأن يحتاج في إخراجه إلى نحو الصابون."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:60، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605101906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن