بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

دوائی کی کمپنی سےاپنے دکان میں کام کرانا


سوال

 ایک ڈاکٹر صاحب کمپنی سے مال خریدتا ہے اور دوائی پر رقم کے مطابق فروخت کرتا ہے، لیکن اب ڈاکٹر نے کمپنی سے مطالبہ کیا کہ آپ میرے لئے کوئی کام کرے کہ دوکان میں رنگ وغیرہ کر کے دے دیں، تو کمپنی کہتی ہے کہ آپ کمپنی سے تقریبا 6 یا 7 لاکھ کی خریداری کریں تب ہم آپ کو 2 لاکھ یا 1 لاکھ کا کام کر دیں گے بشرط کہ پہلے اگر ایک دوائی کمپنی نے آپ کو 120 کی دی تھی تو اب 140 کی دیں گے، نیز اس میں یہ بات ملحوظ رہے کہ ڈاکٹر  اسی دوائی پر رقم قیمت کے مطابق فروخت کریں گے۔ رہنمائی فرمائے کہ یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :

1۔  دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔

2۔  محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔

3 ۔  کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔

4 ۔  دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے  غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ  رشوت اور خیانت  کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں چونکہ کمپنی والوں نے  دکان میں رنگ  وغیرہ کرانے کے بدلےدوائی مہنگی کرنے کی شرط   لگائی ہے ،اور کلینک کا خرچہ اس طرح مریضوں سے وصول کیا جائے گا اس لیے اس شرط پر ڈاکٹر کا کمپنی سے   مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولا بیع  بشرط لا یقتضیه العقد ولایلائمه  وفیہ نفع لاحدھما اوالمبیع."

(شامی باب البیع الفاسد،  ج:5،  ص: 84، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى أنزال كرم بشرط أن يبني البائع حيطانه فسد البيع."

(فتاوی ہندیہ، ج:3 ، ص:136،ط: دارالفکر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں