بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس رکعات تراویح نہ پڑھنے والی بیوی


سوال

میں دیوبندی ہوں اور میری بیوی اہل حدیث ہے اور میری بیوی دیوبندی نہیں ہونا چارہی ہےوہ کہہ رہی ہے کہ آپ اپنے مسلک پر صحیح ہو اور میں اپنے مسلک پر اور وہ مجھ سے راضی بھی ہے اور میں بھی اس سے راضی ہوں ، میں 20 رکعت تراویح پڑھتا تھا وہ مجھے کہتی تھی کہ قران آہستہ آہستہ پڑھاکرو،وہ کہتی ہے کہ قران آہستہ آہستہ آیا ہے جلدی جلدی نہیں آیا اور میں اسے 20 رکعت تراویح کا کہتا ہوں تو وہ غصہ کرتی ہے وہ کہتی ہے کہ مجھے 20 رکعت تراویح کا مت بولا کرو  میں آٹھ ہی پڑھوں گی ،وہ کہتی ہے تم 20 رکعت تراویح پڑھتے ہو ، میں کچھ کہتی ہوں ؟تو مجھے بھی کچھ مت بولا کرو تو کیا ہمارا نکاح درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا نکاح   درست ہے البتہ سائل اپنی بیوی کو دلائل کے ساتھ  حکمت و تدبر کے ساتھ  اس طرح سمجھاتا رہے کہ  میاں بیوی  کے آپس کے تعلقات خوشگوار رہیں اور گھر میں بدمزگی اور  کشیدگی کا ماحول  نہ بنے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما تفسيره) فهو عقد يرد على ملك المتعة قصدا، كذا في الكنز (وأما صفته) فهو أنه في حالة الاعتدال سنة مؤكدة، وحالة التوقان واجب وحالة خوف الجور مكروه، كذا في الاختيار شرح المختار (وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية.(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد إلا أن الأول شرط الانعقاد فلا ينعقد نكاح المجنون والصبي الذي لا يعقل والأخيران شرطا النفاذ؛ فإن نكاح الصبي العاقل يتوقف نفاذه على إجازة وليه هكذا في البدائع.(ومنها) المحل القابل وهي المرأة التي أحلها الشرع بالنكاح، كذا في النهاية."

(کتاب النکاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:267، ط:دار الفکر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها، فإن لم يكن بأن كان أحدهما مرتدا لا يجوز نكاحه أصلا لا بمسلم ولا بكافر غير مرتد، والمرتد مثله؛ لأنه ترك ملة الإسلام ولا يقر على الردة بل يجبر على الإسلام إما بالقتل إن كان رجلا بالإجماع، وإما بالحبس والضرب إن كانت امرأة عندنا إلى أن تموت أو تسلم فكانت الردة في معنى الموت لكونها سببا مفضيا إليه، والميت لا يكون محلا للنكاح؛ ولأن ملك النكاح ملك معصوم ولا عصمة مع المرتدة؛ ولأن نكاح المرتد لا يقع وسيلة إلى المقاصد المطلوبة منه؛ لأنه يجبر على الإسلام على ما بينا فلا يفيد فائدته فلا يجوز، والدليل عليه أن الردة لو اعترضت على النكاح رفعته فإذا قارنته تمنعه من الوجود من طريق الأولى كالرضاع؛ لأن المنع أسهل من الرفع."

(کتاب النکاح، فصل أن يكون للزوجين ملة يقران عليها، ج:2، ص:270، ط:دار الکتب العلمیة بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں