کیامکہ مکرمہ بغیر احرام کے جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ جو افرادمیقات سے باہر کے رہائشی ہیں یعنی آفاقی ہیں، ان کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے میقات سے گزرنے سے پہلے احرام باندھنا لازم ہے، اگر بغیر احرام کے میقات سے گزرگئے اور کسی میقات پر واپس آکر احرام نہیں باندھا تو دم واجب ہوجائے گا۔ لہٰذا اگر کسی نے میقات پر احرام نہیں باندھا، بلکہ مکہ مکرمہ جاکر احرام باندھا تو دم لازم ہوگا۔اسی طرح جو افراد مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور وہ میقات سے باہر چلےجائیں، جیسے مدینہ منورہ یا طائف، ریاض وغیرہ تو واپسی پر کسی بھی میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر آنا اور عمرہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وحرم تأخیر الإحرام عنها) کلّها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مکة) یعني الحرم (ولو لحاجة) غیر الحج، أمّا لو قصد موضعاً من الحلّ کخلیص وجدة، حلّ له مجاوزته بلا إحرام.
(قوله: أي لآفاقي) أي ومن ألحق به کالحرمي والحلي إذا خرجا إلی المیقات کما یأتي، فتقییده بالآفاقي للاحتراز عما لو بقیا في مکانهما، فلایحرم، کما یأتي".
( کتاب الحج، مطلب في المواقیت،ج: ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا يجوز للآفاقي أن يدخل مكة بغير إحرام نوى النسك أو لا ولو دخلها فعليه حجة أو عمرة كذا في محيط السرخسي في باب دخول مكة بغير إحرام"
(کتاب المناسک،الباب الثاني في مواقيت الإحرام،ج:1،ص:221،ط:دارالفکر بیروت)
غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:
"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب۔۔۔۔فإن لم يحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبله ماحرم بما لزمه بالمجاورة من الميقات سقط الاثم والدم بالاتفاق، وكذا إن عاد من عامه ذلك فأحرم بغيره سقط عندنا."
(فصل فى مجاوزة الآفاقى وقته من غير إحرامه ،ص:105 ،ط: المصباح ۔ لاهور )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن