بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھگندر بیماری میں مبتلا شخص کے لیے نماز اور کپڑوں کا حکم


سوال

 ہمارے ایک عزیز کو بھگندر (پاخانہ کے راستے سے کسی چیز کا نکلنا) کا مسئلہ پیش آتا ہے،  بعض اوقات نماز کے دوران یہ واقعہ پیش آتا ہے، لیکن جب تک کپڑے پر اس کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، تب تک شخص کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں اگر جمعہ کی نماز کے دوران یہ مسئلہ پیش آ جائے  ، تو اسے کیسے حل کیا جائے گا؟ اور اگر جمعہ کی نماز کے بعد اس کا پتا چلے تو جمعہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور دیگر نمازوں کا حکم بھی بیان فرما دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں   مذکورہ شخص کو بھگندر کے سبب چوں کہ ہر وقت نجاست کا خروج نہیں ہوتا  ، لہذا مذکورہ شخص معذور شرعی کے حکم میں نہیں ہے ، پس جب بھی پاخانہ کے راستہ سے نجاست کا خروج ہوگا ، اس کا وضو ٹوٹ جائے گا ، استنجاء کرنے اور شلوار کے جس حصہ پر نجاست لگی ہو ، اسے پاک کرنے کے بعد دوبارہ وضوء کر کے مذکورہ نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا ، پس اگر جمعہ کی نماز کے دوران یہ معاملہ پیش آئے اور استنجاء ، کپڑے کی طہارت اور وضوء کرنے کی وجہ سے امام صاحب نماز سے فارغ ہوجائیں اور دوسری جگہ جمعہ کی نماز نہ  ملےتو ظہر کی چار رکعات فرض انفرادی طور پر ادا کرنا ضروری ہوگا ، البتہ اگر مذکورہ شخص طہارت حاصل کرنے کے بعد امام کو تشہد میں پالے تو اس صورت میں امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر جمعہ کی دورکعت ادا کرکے سلام پھیر دے ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط."

(كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، ج: 1، ص: 9 ، ط: دار الفكر) 

وفيه أيضا: 

"مراهقة صلت عريانة أو بغير وضوء تؤمر بالإعادة وإن صلت بغير قناع فصلاتها تامة استحسانا. كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الصلاة،  الباب الثالث في شروط الصلاة، ج: 1، ص: 58، ط: سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے: 

"باب شروط الصلاة هي ثلاثة أنواع..."[إلى أن قال: ]"(هي) ستة (طهارة بدنه) أي جسده لدخول الأطراف في الجسد دون البدن فليحفظ (من حدث) بنوعيه، وقدمه لأنه أغلظ (وخبث) مانع كذلك (وثوبه) وكذا ما يتحرك بحركته أو يعد حاملا له كصبي عليه نجس إن لم يستمسك بنفسه منع وإلا لا."[وفي رد المحتار : ]"(قوله وثوبه) أراد ما لابس البدن، فدخل القلنسوة والخف والنعل ط عن الحموي."

(كتاب الصلاة، باب شروط  الصلاة، ج: 1، ص: 402، ط: سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة. ويستحب للمريض تأخيرها إلى فراغ الإمام وكره إن لم يؤخر هو الصحيح .(ومن أدركها في تشهد أو سجود سهو) على القول به فيها (يتمها جمعة) خلافا لمحمد (كما) يتم (في العيد) اتفاقا كما في عيد الفتح..."[وفي رد المحتار: ]"(قوله: ومن أدركها) أي الجمعة (قوله أو سجود سهو) ولو في تشهده ط."[وقال بعده: ]"(قوله يتمها جمعة) وهو مخير في القراءة إن شاء جهر وإن شاء خافت بحر ."

(كتاب الصلاة ، باب الجمعة ، ج:2، ص: 157، ط: سعيد) 

وفيه أيضا: 

" (واستئنافه أفضل) تحرزا عن الخلاف."[ وفي رد المحتار: ]" قوله واستئنافه أفضل) أي بأن يعمل عملا يقطع الصلاة ثم يشرع بعد الوضوء شرنبلالية عن الكافي وفي حاشية أبي السعود عن شيخه: فلو لم يعمل ما يقطع الصلاة بل ذهب على الفور فتوضأ ثم كبر ينوي الاستئناف لم يكن مستأنفا بل بانيا. اهـ. قلت: هذا ظاهر في المنفرد لأن ما نواه هو عين صلاته من كل وجه، بخلاف الإمام أو المقتدي تأمل."

(كتاب الصلاة، باب الاستخلاف ، ج: 1، ص: 603، ط: سعيد) 

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ومن أدركها في التشهد أو في السجود أتم جمعة عند الشيخين - رحمهما الله تعالى -."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص: 149ـ، ط: دار الفكر) 

بدائع الصنائع میں ہے : 

"وأما حكم فسادها فإن فسدت بخروج الوقت أو بفوت الجماعة يستقبل الظهر وإن فسدت بما تفسد به عامة الصلوات من الحدث العمد والكلام وغير ذلك يستقبل الجمعة عند وجود شرائطها."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يفسد صلاة الجمعة، ج: 2، ص: 214 - 215، ط: دار الكتب العلمية) 

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل."[ وفي رد المحتار:]" (قوله: ولو حكما) أي: ولو كان الاستيعاب حكما بأن انقطع العذر في زمن يسير لا يمكنه فيه الوضوء والصلاة فلا يشترط الاستيعاب الحقيقي في حق الابتداء كما حققه في الفتح والدرر، خلافا لما فهمه الزيلعي كما بسطه في البحر، قال الرحمتي: ثم هل يشترط أن لا يمكنا مع سننهما أو الاقتصار على فرضهما؟ يراجع. اهـ. أقول: الظاهر الثاني، تأمل."

(كتاب الطهارة ، باب الحيض، ج: 1، ص: 305، ط: سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144606100415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں