آج کل آم کے باغات پھل آنے سے پہلے دوسال،تین سال اور بعض تاجر پانچ سال کے لیے خرید لیتے ہیں اور حیلہ یہ کرتے ہیں کہ زمین بھی مزارعت پر لے لیتے ہیں ،حالاں کہ نہ کچھ اُگاتے ہیں اور نہ ہی اُگاسکتےہیں، کیوں کہ آم کے درخت گھنے ہوتے ہیں اور بعض تو مزارعت پربھی نہیں لیتے، تواس طرح معدوم کی بیع کا کیا حکم ہے؟
آم کے وجود میں آنے سےپہلے آموں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ معدوم( جو چیز موجود نہیں ) کی خریدوفروخت ہے، اور معدوم (جوچیز موجود نہ ہو) کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، اس کے لیے مذکورہ حیلہ بھی کار گر نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومن باع ثمرةً بارزةً) أما قبل الظهور فلايصح اتفاقًا. (ظهر صلاحها أو لا صح) في الأصح.
(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت.
(قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح، لكن بدو الصلاح عندنا أن تؤمن العاهة والفساد."
(كتاب البيوع، مطلب فى بيع الثمر والزرع، ج: 4، ص: 554، ط: دار الفكر بيروت)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج بأن قال: بعت ولد ولد هذه الناقة وكذا بيع الحمل؛ لأنه إن باع الولد فهو بيع المعدوم، وإن باع الحمل فله خطر المعدوم، وكذا بيع اللبن في الضرع؛ لأنه له خطر لاحتمال انتفاخ الضرع.، وكذا بيع الثمر، والزرع قبل ظهوره؛ لأنهما معدوم."
(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج: 5، ص: 138، ط: دار الکتب العلمیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511101242
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن