بڑے بھائی کی دکان پر کام کرتا ہوں، اگر ان سے پوچھے بغیر کچھ اپنے اوپر خرچ کروں، تو کیا میرے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کے مال میں مالک کی اجازت کے بغیر تصرف کرے یا اس میں سے کچھ لے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لئے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر ان کے مال یا دکان میں سے کچھ لے کر اس کو اپنے اوپر خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں ، اگر ضرورت ہو، تو بھائی سے اجازت لے کراس کا مال استعمال کرے یا اس سے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرے۔
مرقات المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"(قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ألا ") بالتخفيف للتنبيه (" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."
(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، ج:5، ص: 1974، ط: دار الفكر، بيروت)
مجلة الأحكام العدلية میں ہے:
" لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ: 97/96، ص: 27، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن