بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر آنکھ کی تصویر کا حکم


سوال

ایسی تصویر جس میں آنکھیں نہ بنی ہوئی ہو، لیکن پہچان ہو رہی ہو کہ یہ فلاں بندہ ہے، تو کیا وہ تصویر کے حکم میں ہو گی یا نہیں؟

اور ایسے ہی کسی تصویر کے آنکھوں والے حصہ کو ہٹا کر اور باقی چہرے کی تصویر لگا کر اس کے اوپر یا ساتھ کوئی آیت مبارکہ یا حدیث مبارکہ لکھنا جائزہے  کہ نہیں؟ جیسا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کیا جاتا ہے کہ داڑھی بڑھانے یا مونچھیں بڑھانے یا کٹوانے کے متعلق احادیث شیئر کی جاتی ہیں، تو ان پر تصویر بنی ہوتی ہے، اور کسی کو اس کے شئیر کرنے سے منع کریں تو یہ جواب ملتا ہے کہ اس میں آنکھیں تو نہیں ہیں، تو یہ تصویر کیسے ہوئی جبکہ اس میں صرف آنکھیں نہیں ہوتی لیکن باقی خدوخال تو واضح ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جان دار کی  تصویر میں  اگر  اس طرح کا تصرف کردیا جائے کہ  دیکھنے کے بعد جان دار کی تصویر معلوم نہ ہوتی  ہو (مثلًا تصویر میں سر یا چہرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے) تو وہ حرام تصویر کے زمرے سے نکل جاتی ہے، لیکن اگر جان دار کی حکایت ہورہی ہو تو وہ پھر بھی حرام تصویر ہی رہتی ہے؛ لہٰذا اس طور پر تصویر  بنوانا  یا سوشل میڈیا وغیرہ پر لگانا کہ چہرہ سے صرف آنکھیں ہٹادی جائیں تو محض آنکھیں مٹانے سے وہ تصویر سے خارج نہیں ہوتی ؛ کیوں کہ ایسی تصویر سے بھی جاندار کی حکایت ہوتی ہے،نیز ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے پر مشتمل حدیث کی تشہیر کے لیے کسی تصویر کی حاجت نہیں ہوتی،لہذا اس سے بچناچاہیے۔

البحر الرائق میں ہے:

" (قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره ولا قبراً إلا سواه ولا صورةً إلا لطخها» اهـ.

وأما قطع الرأس عن الجسد مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك ولهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية. قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين. وفي الخلاصة: وكذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس".

(2/ 30،کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا، ط: دار الکتاب الاسلامی)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"وإن کانت مقطوع الرأس لا بأس به، وکذا لو محی وجه الصورة فهو کقطع الرأس".

(1/58، کتاب الصلوٰۃ، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی  میں ہے:

"أو مقطوعة الرأس أو الوجه)  أو ممحوة عضو لاتعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره؛ لأنها لاتعبد وخبر جبريل مخصوص بغير المهانة كما بسطه ابن الكمال.

(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله لأنها لاتعبد بدون الرأس عادة وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل (قوله: أو لغير ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: "فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له" رواه الشيخان، ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر".

(1/ 648،  کتاب الصلاة، باب مایفسدالصلاة وما یکره فیها، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144510100487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں