بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بغیر ڈاڑھی والے حافظ کی اقتداء میں تروایح پڑھنے کا حکم


سوال

ایک حافظ صاحب کی تاریخ پیدائش2008-8-5  ہے، ظاہری علامت   میں مونچھیں ہیں، لیکن ڈاڑھی نہیں ہے،  اور بلوغت کی علامت میں احتلام پایا گیا ہے، زیر ناف  بال بھی صاف کرتے ہیں، تو کیا اس حافظ صاحب کے پیچھے مسجد میں نماز تراویح  پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب

امامت کے لیےاما م کا بالغ ہونا شرعاً ضروری ہے اور بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات (احتلام،انزال وغیرہ) ظاہر ہوجائیں تو  وہ بالغ شمار ہوگا اور  امامت کرسکتاہے،  لیکن اگر علاماتِ بلوغت ظاہر نہ ہوں تو  قمری سال کے  اعتبار سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ شمار ہوگا  اور اس کی امامت درست ہوگی   اور علامتِ بلوغت کے ظاہر ہونے اور معتبر ہونے کی کم از کم عمر بارہ سال ہے، پندرہ سال عمر کا ہونا اس وقت ضروری ہے، جب کہ بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو، البتہ اگر کوئی بارہ سال کی عمر میں بالغ ہو گیا ہو تو اس صورت میں امام بننے کے لیے پندرہ سال عمر کا ہونا ضروری نہیں۔لہٰذا صورتِ مسئولہ  میں  حافظ صاحب میں علاماتِ بلوغت بھی موجود ہیں اور ان کی عمر بھی پندرہ سال سے زیادہ ہے تو وہ بالغ ہیں اور   ان کا امامت کروانا اور ان  کی اقتداء میں(تراویح کی) نماز پڑھنا شرعا درست ہے، اگر چہ  حافظ صاحب کی ڈاڑھی نہ آئی ہو۔ تا ہم اگر حافظ صاحب جسامت سے چھوٹے معلوم ہوتے ہوں اور   لوگ ان کی امامت پر مطمئن نہ ہوں تو مسجد کے مرکزی مصلے پر تراویح سنانے کے لیے کسی تجربہ کار حافظ صاحب کا انتخاب   کرنا بہتر ہے۔

اور اگر ایک مشت سے پہلے ڈاڑھی کاٹتا ہے تو پھر اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"بلوغ ‌الغلام بالاحتلام أو الإحبال أو الإنزال، والجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. والسن الذي يحكم ببلوغ الغلام والجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنة عند أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى".

(كتاب الحجر، الباب الثاني في الحجر للفساد، الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ، ج:5، ص:61، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فإن لم يوجد فيهما) أي في الغلام والجارية شيء مما ذكر إلخ مفاده: أنه لا اعتبار لنبات العانة خلافا للشافعي، ورواية عن أبي يوسف، ولا اللحية".

(كتاب الحجر، فصل، ج:6، ص:153، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام ‌والبلوغ ‌والعقل ‌والذكورة ‌والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة".

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:550، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608102083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں