ایک لڑکا اور لڑکی کا نکاح ہوا، نکاح میں گواہ نہیں تھے، صرف نکاح پڑھانے والا موجود تھا، اور کوئی نہیں تھا، اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ نکاح درست تھا یا نہیں؟ صرف نکاح خواں کو گواہ بنا کر نکاح کرنا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ شرعاً نکاح کے منعقد ہونے کےلیے دو مسلمان مرد گواہو ں یا ایک مرد اور دوعورتوں کے سامنے زبان سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہے، بغیر گواہوں کے یا ایک گواہ کی موجودگی میں ایجاب وقبول نکاح جائز ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، اس سے شرعاً نکاح منعقدنہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ دونوں(لڑکا اور لڑکی) نے محض ایک گواہ(نکاح خواں) کی موجودگی میں نکاح کیا ہے، لہذا یہ نکاح شرعًا منعقد ہی نہیں ہوا ہے، اب اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو دوبارہ مہر مقرر کر کے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
سنن الترمذی میں ہے:
"عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن بغير بينة»."
ترجمہ:"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زنا کار ہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کر لیتی ہیں۔"
( أبواب النكاح، باب ما جاء لا نكاح إلا ببينة، رقم:1103، ج:3، ص:403، ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معًا) على الأصح."
(كتاب النكاح، ج: 3 ص: 21 ط: دار الفکر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال:) ولو تزوج امرأة بغير شهود أو بشاهد واحد ثم أشهد بعد ذلك لم يجز النكاح؛ لأن الشرط هو الإشهاد على العقد، ولم يوجد، وإنما وجد الإشهاد على الإقرار بالعقد الفاسد، والإقرار بالعقد ليس بعقد، وبالإشهاد عليه لا ينقلب الفاسد صحيحا."
(کتاب النکاح، باب النكاح بغير شهود، تزوج امرأة بغير شهود أو بشاهد واحد ثم أشهد بعد ذلك، ج:5، ص:35، ط: دار المعرفة - بيروت)
ہدایہ میں ہے:
"ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه: اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود ."
(كتاب النكاح، ج:1، ص:185، ط: دار الإحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102874
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن