میرے شوہر مجھے وقت نہیں دیتے اور ہم دونوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی بالکل بھی نہیں ہے،میں شوہر کے پاس 15 دن مہینے میں ملنے جاتی ہوں ،اور باقی دن میں اپنےماں باپ کے گھر پر رہتی ہوں، میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں ہماری شادی کو ڈیڑھ سال ہوا ہے، اب میں اپنے شوہر سے خلع چاہتی ہوں کیوں کہ شادی کا مقصد پورا نہیں ہو رہا ان کا کھانا پینا الگ رہنا، یہاں تک کہ میرا کھانا ان کو بھی پسند نہیں ہے۔
یہ بھی واضح ہو کہ ہماری برادری الگ الگ ہے،سارا دن دکان میں وہ مصروف رہتے ہیں، رات کو تھک کرآتے ہیں،اور کھانا کھا کر سو جاتے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھ سے بات کریں،میرے ساتھ مذاق کریں،بات چیت کریں،لیکن وہ نہیں سمجھتے اب میرا صبر کا پیمانہ ختم ہو گیا میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیااس صورت میں میں اس سے خلع کامطالبہ کرسکتی ہوں یانہیں؟
واضح رہے کہ عورت کاشدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
سنن أبي داود میں ہے:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقًا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."
ترجمہ:”ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے“۔
( باب الخلع، ج:1، ص:320، ط: حقانیه)
اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے، اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے ، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے، اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور دونوں میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے،نیز خلع کا مطالبہ شوہر سے ہی کیا جائے گا، اگر وہ اس مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے خلع دے دے تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوجائے گا، عدالت سے یک طرفہ خلع لینے سے شرعاً نکاح ختم نہیں ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ."
[البقرة: 229]
ترجمہ: "سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا، اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔"(از بیان القرآن)
المغرب میں ہے:
"(و خالعت) المرأة زوجها (و اختلعت منه) إذا افتدت منه بمالها فإذا أجابها إلى ذلك فطلقها قيل: خلعها."
(المغرب في ترتيب المعرب، باب الخاء المعجمہ، الخاء مع اللام،ص: 151، ط: دار الکتاب العربی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102752
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن