ایک آدمی نے بغیر کسی گواہ کے قاضی کے ذریعے نکاح کیا، وہاں صرف میاں بیوی اور قاضی تھے، شادی کے بعد وہ ایک دن کے سفر پر جاتے ہیں، وہاں وہ آدھے گھنٹے تک ایک ہی کمرے میں رہے، لیکن انہوں نے ہم بستری نہیں کی، لیکن کمرے کا دروازہ بند نہیں تھا، لیکن اگر وہ چاہتے تو ایسی حالت میں جماع کرسکتے تھے، پھر ایک دن گھر والوں کے سامنے کسی وجہ سے جھگڑا ہوجاتا ہے اور شوہر کہتا ہے کہ ایک طلاق، دو طلاق، تین طلاق۔ کیا وہ اب دوبارہ شادی کرسکتے ہیں یا بیوی کو دوسری جگہ شادی کرنی ہوگی؟
واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے مجلس نکاح میں دو شرعی گواہوں کاموجود ہونا شرط ہے،اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ لہٰذاصورت مسئولہ میں اگر نکاح کی مجلس میں صرف نکاح کرنے والے مرد و عورت اور قاضی تھا، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص وہاں موجود نہ تھا(جو شرعی ضابطہ کے مطابق گواہ بن سکتا ہو)تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہواتھا۔اور وہ دونوں آپس میں میاں بیوی نہیں، اور جو مرد نے طلاق کے الفاظ کہے ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ لہٰذا دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں، اور باہمی رضامندی سے نکاح کرناچاہیں تو (شرعی طریقے کے مطابق) نکاح کرسکتے ہیں۔
نیز اب تک بغیر نکاح کے دونوں نے جو آپس میں تعلق رکھا ، وہ حرام اور گناہ تھا، اس پر اللہ کے حضور توبہ استغفار کریں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"قال عامة العلماء: إن الشهادة شرط جواز النكاح»، ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا نكاح إلا بشهود»، و روي: «لا نكاح إلا بشاهدين»، و عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الزانية التي تنكح نفسها بغير بينة»، و لو لم تكن الشهادة شرطًا لم تكن زانية بدونها و لأن الحاجة مسّت إلى دفع تهمة الزنا عنها و لاتندفع إلا بالشهود."
(کتاب النکاح، فصل الشھادۃ في النکاح :252/2، ط: دار الكتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و محله المنكوحة) أي و لو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة و ثنتين في أمة."
(کتاب الطلاق،محل الطلاق،ج:3،ص:230،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101497
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن