بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ثمن کی جہالت کے ساتھ بیع کا حکم


سوال

مجھے  دل کا عارضہ ہےاور میرے گردے بھی بہت متاثر ہیں،میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ اپنا علاج کراسکوں،دوائیاں بھی قسطوں میں نامکمل آتی ہیں،مجھے گھر میں بے یار ومددگار چھوڑرکھا ہے،میں نےوقت پاس کرنے کے لیے کچھ کبوتر پال لیے تھے ،اس پر میرے بڑے بیٹے کو اعتراض تھا،اس نےکہاکبوتر کے علاوہ کچھ بھی پال لیں ،لیکن کبوتر نہ پالیں ،اس نے کبوتر خریدنے کے لیے ایک لڑکے کو بھیجا  جو کہ خریدار تھا، جب وہ خریدار آیا تو عشاء کی نماز تیار تھی میں نماز کے لیے چلاگیا،جب نماز پڑھ کر آیاتووہ لڑکا کبوتر لے کر جاچکا تھا، میں نے چھوٹے بیٹے سے پوچھا کہ پیسوں کی بات ہوئی تھی ؟ بیٹے نے کہا : اس نے کہا مارکیٹ میں  جو ریٹ ہو گا وہی آپ کو ملیں گے،اس کبوتر کے ساتھ انڈے بھی تھے،جس سے دو دن بعد  چوزے نکلنے والے تھے۔ اب آیا یہ بیع درست  ہوئی یا نہیں؟

اسی طرح گھر میں کچھ تصویریں بھی ہیں اس کے بارے میں شرعی رہنمائی  فرمائیں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ بیع درست ہونے کےلیےمبیع اور ثمن دونوں کا متعین ہونا ضروری ہے، مبیع یا ثمن مجہول ہونے کی صورت میں بیع فاسد ہوجاتی ہے، جسے فسخ کرنا لازم ہوجاتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں    سائل كے بيٹے كا اس طرح كا بيع كرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ اس میں  کبوتروں کی قیمت متعین نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ بیع فاسد  ہوئی ہے، اس بیع کو فسخ کرناعاقدین پر دیا نتاً واجب ہے۔

2۔ کسی جاندار کی تصویر گھر میں لٹکانایارکھناجائز نہیں ہے،  حدیث میں آتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  جس گھر میں (ذی روح کی) تصويریا کتا  ہو،اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"في الدر: (وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع وثمن."

وفي الرد: وخرج أيضا ما لو كان الثمن مجهولا كالبيع بقيمته أو برأس ماله أو بما اشتراه أو بمثل ما اشتراه فلان، فإن علم المشتري بالقدر في المجلس جازومنه أيضا ما لو باعه بمثل ما يبيع الناس إلا أن يكون شيئا لا يتفاوت نهر."

(كتاب البيوع، ج: 4، ص: 529، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(وفسد) بيع (ما سكت) أي وقع السكوت (فيه عن الثمن) كبيعه بقيمته.

(قوله: ما سكت فيه عن الثمن) ؛ لأن مطلق البيع يقتضي المعاوضة فإذا سكت كان غرضه القيمة فكأنه باع بقيمته فيفسد ولا يبطل درر: أي بخلاف ما إذا صرح بنفي الثمن كما قدمه قريبا."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 60، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"له صفات منها أنه ملك غير لازم بل هو مستحق الفسخ فيقع الكلام في هذه الصفة في مواضع، في بيان أن الثابت بهذا البيع مستحق الفسخ ۔۔ودفع الفساد واجب ولا يمكن إلا بفسخ العقد فيستحق فسخه لكن لغيره لا لعينه."

(كتاب البيوع، خيار الرؤية، ج: 5، ص: 300، ط: دار الكتب العلمية)

مشکوۃ المصابیح میں ہے: 

"عن أبي طلحة قال: قال النبي صلی الله علیه و سلم: لاتدخل الملائکة بیتاً فیه کلب و لاتصاویر". متفق علیه."

(كتاب اللباس، باب التصاوير: ج:2،ص: 1273، رقم: 4489، ط: المكتب الإسلامي)

امداد الاحکام  میں ہے:

’’بیع فاسدکاحکم یہ ہے کہ بائع ومشتری دونوں کو توڑنا دیا نتا واجب ہے، لیکن اگر مشتری نہ توڑے تو اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

(کتاب البیوع، فصل فی البیوع الفاسدۃ،ج: 3، ص: 427، ط:مکتبہ دار  العلوم کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512101534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں