ایک بچہ جس کی پیدائش ایک بت سماج کے ماننے والے خاندان میں ہوئی ،بچے کے بچپن ہی میں ماں باپ انتقال کر گئے ، بچے کو ایک مسلمان بھائی نے پناہ دی ،بچے نے بظاہر اسلام کو ماننا شروع کردیا،نماز بھی ادا کرنے لگا، پھر اس کو ایک مسلمان خاتون سے محبّت ہوگئی، گھر سے بھاگ کرشریعت کی مطابق شادی کرلی ، لیکن اب لڑکی کے گھر والے کش مکش میں ہیں کہ وہ لڑکا واقعی مسلمان ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب اس شخص نے بظاہر اسلام کو سچا اور برحق دین مان کر نماز پڑھنا شروع کیا تھا اور ابھی تک اس سے ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار یاکوئی ایساقول وفعل جو دینِ اسلام سے انکار کو مستلزم ہوبھی ثابت نہیں ہواہےتو وہ مسلمان ہے، نیز نکاح اگر اس نےشریعت کے مطابق دو گواہوں کے موجودگی میں کیاہے تو نکاح بھی صحیح ہے،تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہے، نیز لڑکی کے گھروالوں کا بغیر کسی ثبوت کے خواہ مخواہ اس شخص کے مسلمان ہونے میں تردد کا شکار ہوجانا درست نہیں ہے۔ تاہم مذکورہ لڑکے اور لڑکی کو چاہیے تھا کہ لڑکی کے خاندان کے بڑوں کو اعتماد میں لے کر نکاح کرتے؛ یہی اسلامی تعلیمات ہیں۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أسامة بن زيد قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال: لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: «أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله؟» قلت: يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال: «فهلا شققت عن قلبه."
(كتاب القصاص، الفصل الأول، 1028/2، الرقم :3450، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ : ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم قبیلہ جہینہ سے لڑنے گئے۔ چنانچہ میں ان میں سے ایک شخص کے پاس آیا اور میں نے اسے نیزہ مارنے کا ارادہ کیا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہا۔ میں نے اس کے باوجود اسے نیزہ مار کر قتل کر ڈالا ۔ پھر میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اسامہ! کیا تم نے اسے قتل کر دیا ؟ حالانکہ وہ الہ الا اللہ کہنے والا تھا۔ میں نے عرض کیا اس نے اپنے آپ کو قتل سے بچانے کے لئے ایسا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس کے دل کو چیرا ؟ ( کہ جس سے معلوم ہو گیا کہ اس نے ڈر کی وجہ سے پڑھا ہے ) ۔‘‘(مظاہر حق)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن أسامة بن زيد) : حب رسول الله صلى الله عليه وسلم (قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم : أي أرسلني مع جماعة من الصحابة (إلى أناس من جهينة) ، بالتصغير قبيلة (فأتيت) : أي مررت أو أقبلت (على رجل منهم، فذهبت أطعنه) ، بفتح العين أي شرعت أضربه بالرمح، ويجوز ضم العين. ففي القاموس: طعنه بالرمح كمنعه ونصره طعنا ضربه وزجره. (فقال: لا إله إلا الله، فقتلته) ، ظن رضي الله عنه أن إسلامه لا عن صميم قلبه، أو اجتهد في هذا أن الإيمان في مثل هذه الحالة لا ينفع، فبينه صلى الله عليه وسلم أنه أخطأ في اجتهاده وهذا معنى قوله: (فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته، فقال: " أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله ") ، والجملة حالية (قلت: يا رسول الله إنما فعل ذلك) : أي إظهار الإيمان (تعوذا) . مفعول له، وقيل: حال أي مستعيذا من القتل بكلمة التوحيد، وما كان مخلصا في إسلامه (فقال) : أي رسول الله صلى الله عليه وسلم: (" فهلا شققت عن قلبه ") ؟ أي إذا عرفت ذلك. فلم لا شققت عن قلبه لتعلم وتطلع على ما في باطنه؟ أتعوذا قال ذلك أم إخلاصا؟ وشق القلب مستعار هنا للفحص والبحث عن قلبه أنه مؤمن أو كافر، وحاصله أن أسامة ادعى أمرا يجوز معه القتل، والنبي صلى الله عليه وسلم نهاه لانتفاء سببه ; لأن الاطلاع عليه إنما يكون للباحث على القلوب، ولا سبيل إليه إلا لعلام الغيوب. قال النووي: معناه أنك إنما كلفت بالعمل بالظاهر وما ينطق به اللسان، وأما القلب فليس لك طريق إلى معرفة ما فيه، فأنكر عليه امتناعه من العمل بما يظهر باللسان فقال: هلا شققت عن قلبه لتنظر هل قالها بالقلب واعتقدها وكانت فيه، أم لم تكن فيه: بل جرت على اللسان فحسب يعني: فأنت لست بقادر على هذا، فاقتصر على اللسان ولا تطلب غيره، وفيه دليل للقاعدة المعروفة في الفقه والأصول أن الأحكام يحكم فيها بالظواهر، والله تعالى يتولى السرائر."
(كتاب القصاص، 2260/6، الرقم:3450، ط:دار الفكر بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601100913
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن