ایک شخص کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس نے اپنی بہن سے قرضہ مانگا، بہن کے پاس نقد پیسے نہیں تھے، تو بھائی نے کہا: آپ کے پاس جو سونا ہے وہ قرضہ دے دیں، اس وقت اس سونے کی قیمت ایک لاکھ اسی ہزار روپےتھی، میں جب بھی سونا بناؤں گا تو آپ کے لیے بھی بنا دوں گا، یہ 2018 کی بات ہے، اب سونے کی قیمت دوچند ہو چکی ہے، اب بھائی اپنی بہن کو سونا دوبارہ لوٹائے گایا اس کی قیمت ادا کرے گا؟
یاد رہے کہ بھائی نے بہن سے سونا بطورِ قرض لیا تھا، جس کو خود بیچا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ بھائی نے بہن سے قرضہ کی مد میں سونا وصول کیا تھا؛ اس لیے بھائی کے ذمہ سونے کی اتنی مقدار واپس کرنا لازم ہے جتنی اس نے قرض میں وصول کی تھی یا آج کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، اب اگر سونے کی قیمت دوچند ہو گئی تو اس سے مسئلہ پر کوئی فرق نہ پڑے گا، حکم یہی ہے کہ سونا واپس کرے یا اتنی مقدار کے سونے کی آج کی قیمت ادا کرے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو استقرض فلوسا نافقة، وقبضها فكسدت فعليه رد مثل ما قبض من الفلوس عددا ... ولو لم تكسد، ولكنها رخصت أو غلت فعليه رد مثل ما قبض بلا خلاف لما ذكرنا أن صفة الثمنية باقية."
(کتاب البیوع ، جلد : 5 ، صفحه : 242 ، طبع : دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101793
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن