1۔بھنگ کی کاشت کاری کرنا جائز ہے یا نہیں ؟جواز کی صورت میں ا س سےعشر دیا جائے گا یا نہیں ؟نیز بھنگ ان کمپنیوں کو بیچی جاسکتی ہے جن کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ حلال میں استعمال کریں گے یا حرام میں ؟
2۔شرکائے زمین میں سے کسی شریک نے تمام شرکاء کی اجازت سے اسی زمین میں بھنگ کی کاشت کاری کی ،پھر اگلے سال کسی دوسرے شریک نے تمام شرکائے زمین کی اجازت سے آلو کی کاشت کاری کی ، اب آلو کی کاشت کاری کے بعد خودبخود اس زمین میں بھنگ پیدا ہوگئی، تو اب اس بھنگ کا کیا حکم ہونا چاہیے ؟
3۔عوام میں مشہور ہے کہ کسی زمین میں ایک مرتبہ بھنگ کی کاشت کاری کرنے سے اس زمین میں چالیس سال تک کسی دوسری فصل کی کاشت کاری حرام ہے ،کیا یہ بات درست ہے ؟
1۔بھنگ کا چوں کہ جائز استعمال بھی ہوتا ہے، جیسے ادویات و دیگر جائز امور میں استعمال لہذا بھنگ کی کاشت فی نفسہ جائز ہے، اوراس کی کاشت میں بھی عشر یا نصف عشر کی ادائیگی لازم ہے۔ اور دوا ساز ادارے یا کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ اس سے کیا بنائے گا جائز ہے، البتہ کسی ایسی شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں فروخت کنندہ کو معلوم ہو کہ خریدار افیون یا بھنگ ناجائز مقصد میں استعمال کرے گا مکروہ تحریمی ہے۔
2۔مذکورہ زمین میں بھنگ کے خودبخود پیدا ہوجانے کی صورت میں اگر اس کی حفاظت کی جائے ، دیکھ بھال کی جائے، دوسروں کو اس کے کاٹنے سے روکا جائے اور بعد میں اسے فروخت کیا جائے تو خودبخود اگنے والی بھنگ میں بھی عشر لازم ہوگا۔اور اگر خود اگنے کی صورت میں اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے ،نہ حفاظت کی جائے نہ اسے فروخت کیا جائے تو عشرلازم نہ ہوگا۔
3۔جس زمین میں بھنگ کی کاشت کی گئی ہو،بعد میں اس زمین میں کسی دوسری فصل کی کاشت کاری جائز ہے ، ایسی زمین میں چالیس سال تک کسی دوسری فصل کی کاشت کاری حرام ہونے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔
کفایت المفتی میں ہے:
"افیون ، چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے،تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی نا جائز ہے۔"
( کفایت المفتی،ج:9،ص:129، ط:دارالاشاعت)
شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:
"مسألة: [بيع عصير العنب ممن يجعله خمرا]
قال: (ولا بأس ببيع العصير من كل أحد: خاف البائع أن يتخذه المشتري خمرا، أو أمن ذلك).
وذلك لأن العصير مباح جائز التصرف فيه، وإنما المأثم على من يتخذه خمرا لشربها، فأما البائع فلا شيء عليه في ذلك، كبيع الحرير والحلي من الرجال: فهو جائز مباح وإن لم يأمن أن يلبسه الرجل، أو يستعمله فيما لا يجوز.
فإن قيل: فقد كرهتم بيع السلاح في الفتنة، وفي عساكر الفتنة، فهلا كان كذلك بيع العصير ممن يتخذه خمرا؟
قيل له: الفصل بينهما: أن السلاح على هيئته هذه يستعان به على القتال، فإذا كان زمان الفتنة: كره بيعه ممن يستعين به عليها، كما يكره إعطاء صاحب الفتنة من الخوارج وأهل الحرب، وأما العصير فلا بأس بالانتفاع به على هيئته كيف شاء صاحبه، وإنما المحظور منه بعد استحالته خمرا، وليست هي المعقود عليها في الحال.
فإن قيل: فينبغي أن يكره بيع الحرير والحلي من الرجال؛ لأنهما على هيئتهما ينتفع بهما في الجهة المحظورة.قيل له: لم نقل إن بيع السلاح مكروه، لأجل إمكان الانتفاع به على هذه الهيئة في الوجه المحظور، دون أن تكون الحال دالة عليه، وهو إن يكون في عسكر الفتنة، أو زمان الفتنة مع ما وصفنا من حاله.
وأما الحرير والحلي، فليس لهما حال ظاهرة يمنع ببيعهما وإن كان الانتفاع بهما ممكنا على الوجه المحظور، وبيع العصير يشبه من هذه الجهة بيع الحرير والحلي من الرجال، إذ ليست ها هنا حال ظاهرة يقتضي أن يكون شراء العصير لأن يتخذ خمرا، فوجب أن لا يمنع بيعه.وأما ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: "أنه لعن الخمر، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، وبيعها": فما ذكر في الخبر فلا دلالة عليه على مسألتنا؛ لأن ذلك وارد في الخمر، وكلامنا في عصير ليس بخمر.
فإن قيل: إنما عنى عاصر العنب للخمر، فينبغي أن يكون بائع العصير للخمر مثله.قيل له: قولك إنه عنى عاصر العنب للخمر: دعوى لا دلالة عليه من الخبر، لأن الخمر نفسه قد يجوز أن يعتصر، بأن يطرح العنب في الإناء حتى ينشي ويغلي، ثم يعصر، فيكون عاصرا للخمر، وهذا الذي اقتضاه ظاهر الخبر؛ لأنه لعن عاصر الخمر، فينبغي أن يكون خمرا في حال العصير.وعلى أنا ننهى أيضا عن عصير العنب للخمر، ومن فعل ذلك فهو عاصر، وإنما مسألتنا فيمن باع ولم يعصره، وإنما خاف أن يعصره المشتري، فلا يكون البائع منهيا عنه لأجل فعل يحدث بعده من غيره."
( كتاب الأشربة وأحكامها، ج:6،ص؛391-92، ط: دار البشائر الإسلامية )
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
''فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب والطرفاء والسعف؛ لأن الأراضي لا تستنمي بهذه الأشياء، بل تفسدها، حتى لو استنمت بقوائم الخلاف والحشيش والقصب وغصون النخل أو فيها دلب أو صنوبر ونحوها، وكان يقطعه ويبيعه يجب فيه العشر، كذا في محيط السرخسي."
( الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار، ج:1،ص:186،ط: رشیدیہ)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا."
(كتاب الزكاة، باب زکاۃ الزرع والثمار، فصل في صفة الواجب،ج:2،ص:63، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن