بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاں حرام کھانا تیار کیا جاتا ہو وہاں کھانا یا فروخت کرنا یا ڈیلیور کرنا


سوال

باہر ممالک میں جن ہوٹل میں کھانے کی چیزیں فروخت  کی جاتیں ہیں تو ان ہوٹلوں میں کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟ جو حلال جانور ہوں مگر ذبح نہ کیےگئے ہوں اور پھر ان سے کھانا تیار کیا جارہا ہو، کیا اس کا بیچنا، وہاں کام کرنا، ڈیلیوری کرنا جائز ہے؟ 

جواب

 باہر ممالک کے جن ہوٹلوں میں صرف  حلال  کھانا تیار کیا جاتا ہے یاجن میں حلال الگ سے تیار کیا جاتا ہے اور کھانے کے اجزاء اور تیاری اور پیش کرنے کے وقت تک ان میں کوئی حرام کی آمیزش نہیں ہوتی ایسا کھانا کھانا بھی جائز  ہے اور  وہاں کام کرنا اور ان کے حلال کھانے کی ڈیلیوری بھی جائز ہے۔

اور جن ہوٹلوں میں حلال جانوروں کوذبح کیے بغیر کھانا تیار کیا جاتا ہو، ان  ہوٹلوں میں گوشت کھانا یا ایسی کوئی بھی چیز کھانا جس میں کسی مرحلے میں بھی حرام کی آمیزش ہو ،حرام ہے۔جو کھانا حرام ہواس کا تیار کرنا،کھانا،فروخت کرنا یا ڈیلیوری کرنا بھی شرعًا ناجائزاور حرام ہے۔

"احکام القرآن" میں ہے:

"قال الله تعالى: {إنما حرم عليكم ‌الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله} . قال أبو بكر: ‌الميتة في الشرع اسم للحيوان الميت غير المذكى، وقد يكون ميتة بأن يموت حتف أنفه من غير سبب لآدمي فيه، وقد يكون ميتة لسبب فعل آدمي إذا لم يكن فعله فيه على وجه الذكاة المبيحة له..... قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على وجه ولا يطعمها الكلاب والجوارح لأن ذلك ضرب من الانتفاع بها، وقد حرم الله ‌الميتة تحريما مطلقا معلقا بعينها مؤكدا به حكم الحظر فلا يجوز الانتفاع بشيء منها إلا أن يخص شيء منها بدليل يجب التسليم له."

(سورة البقرة، باب ذكاة الجنين،ج:1،ص: 130، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاّ:

"قال الله تعالى: {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة والدم} وقال في آخرها {إلا ما ذكيتم} [المائدة: 3] وقال: إنما {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة} فحرم الله الميتة مطلقا واستثنى المذكى منها وبين النبي صلى الله عليه وسلم الذكاة في المقدور على ذكاته في النحر واللبة وفي غير المقدور على ذكاته بسفح دمه فقوله عليه السلام: "أنهر الدم بما شئت". وقوله في المعراض: "إذا خزق فكل وإذا لم يخزق فلا تأكل" فلما كانت الذكاة منقسمة إلى هذين الوجهين وحكم الله بتحريم الميتة حكما عاما واستثنى منه المذكى بالصفة التي ذكرنا على لسان نبيه ولم تكن هذه الصفة موجودة في الجنين، كان محرما بظاهر الآية."

(سورة البقرة، باب ذكاة الجنين،ج:1،ص: 135، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وما كان سببا لمحظور فهو محظور."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:350،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں