بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

باہمی رخامندی سے میراث تقسیم کرنے کے بعد ازسرنومیراث کی تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا اوردیگر ورثاءکو کاغذات ٹرانسفرنہ کرنا


سوال

2013میں  باہمی  مشاورت و مصالحت سے بھائیوں  اور بہنوں کے درمیا ن  جائیداد  کی تقسیم  ہوئی ،انہوں نے ایک بھائی کو اختیار دیا تھا  باہمی رضامندی سے قیمتوں  کی تعین کے بعد جائیداد کی تقسیم ایک  بھائی نے کردی تھی،  باقی نے ان کو اختیار دیاتھا، کراچی اور  کوئٹہ کی جائیداد  کی قیمت کا تعین  چند ورثاء کی  زمہ لگائی گی،  تمام ورثاء کی باہمی مشاورت  سے،اس کے بعد تمام ورثاء میں جائیدادکی تقسیم ہوئی  اور تمام ورثاء نے اپنےاپنےحصوں پرقبضہ بھی کرلیا،پھربعض ورثاء نے اپنی جائیداد فروخت کردی  ،کچھ سالوں بعدایک فریق نے یہ اعتراض اٹھایاکہ 2013 میں جائیداد کی قیمت کا صحیح  تعین نہیں کیا گیا تھااور ان  اعتراض اٹھانے والوں میں  وہ ورثاء بھی  شامل ہے، جن کے ذمہ  اس جائیداد کی درست قیمت طےکرناتھی   چونکہ مذکورہ جائیداد تقسیم سے پہلےمختلف ورثاء کے نام پر تھی،  تقسیم کے بعد تمام ورثاءکےحصہ میں آئی ہے  ،اب وہ ورثاء جن کے نام پر تقسیم سے پہلے جائیدادتھی، وہ  ٹرانسفردینےمیں تاخیرکررہےہیں اور مطالبہ کررہےہیں کہ  مذکورہ جائیدادکی ازسرنوقیمت لگائی جاۓاوراضافی قیمت  بعد از فروخت  تمام ورثاء میں تقسیم کردی جاۓ،  واضح رہےکہ   متعددورثاء اپنی جائیداد فروخت بھی کرچکے ہیں ، اب سوال یہ  ہےکہ  جوورثاء جائیدادکی ازسرنوقیمت  لگاکر تقسیم کا مطالبہ کررہےہیں  ان کا یہ مطالبہ شرعادرست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شرعی حصص کی بنیاد پرترکہ کی تقسیم کرنی چاہیے تھی، تاہم اگر  تمام ورثاء کی باہمی مشاورت اور رضامندی سے تقسیم کرکے ہر وارث نے اپنے حصہ پر قبضہ کرلیا تھا، جسے شریعت کی اصطلاح میں مصالحت کہتے ہیں؛  تو اس صورت میں اس میں تبدیلی کا اختیار اب کسی کو نہ ہوگا، البتہ اگر حصوں پر قبضہ اب تک نہ ہوا ہو، یا کسی وارث جیسے بہن یا بیوہ کو میراث سے محروم کردیا گیا ہو، تو اس صورت میں شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم ضروری ہوگی، اور ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ دیا جائے گانیزجوورثاءٹرانسفردینے میں تاخیرکررہےہیں ان کا یہ طرزعمل سخت گناہ کا باعث ہےاور ظلم میں شمار ہوگاروز قیامت اس پر سخت پکڑ ہوگی ،اس لیےان کوچاہیےکہ اپنےآپ کو قیامت کے سخت دن کی پکڑ سے بچاۓاور دیگرورثاءکو ان کاحق ٹرانسفرکردیں   ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ثم شرع في مسألة التخارج) تفاعل من الخروج وهو في الاصطلاح تصالح الورثة على إخراج بعضهم عن الميراث على شيء من التركة عين أو دين قال في سكب الأنهر وأصله ما روي أن عبد الرحمن بن عوف - رضي الله تعالى عنه - طلق في مرض موته إحدى نسائه الأربع ثم مات وهي في العدة فورثها عثمان - رضي الله تعالى عنه - ربع الثمن فصالحوها عنه على ثلاثة وثمانين ألفا من الدراهم وفي رواية من الدنانير وفي رواية ثمانين ألفا وكان ذلك بمحضر من الصحابة من غير نكير اهـ....  أنهم لو أخرجوا واحدا، وأعطوه من مالهم فحصته تقسم بين الباقي على السواء وإن كان المعطى مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم قال الشارح هناك وقيده الخصاف بكونه عن إنكار فلو عن إقرار فعلى السواء اهـ فتأمله."

( كتاب الفرائض،باب التخارج ، ج:6 ،ص:811، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة."

( كتاب الصلح، فصل في التخارج،ج:5،ص:642، ط: دار الفكر) 

صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل : أنه «خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌من ‌أخذ ‌شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

(كتاب بدأ الخلق، ج:4، ص:107،المطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «‌ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

(باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں