بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کو میراث میں حصہ نہ دینے پر وعیدیں


سوال

میرے نانا اور نانی نے وراثت میں کافی زمین اور تین مکانات (جن میں سے دو مکان کراچی میں اور ایک گاؤں میں) چھوڑے ہیں، نانا نے ورثاء  میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑی ہیں، بیٹوں نے آپس میں وراثت تقسیم کر دی، مالی حالات مستحکم ہونے کی بنا پر دو بہنوں نے اپنا حصہ معاف کر دیا اور انگوٹھا کاغذات پر لگا دیا، باقی چار نے زمین کے حصے کا مطالبہ کیا، جن میں سے تین کو حصہ دیا گیا، ان میں سے دو کو زمین کے بدلے زمین اور ایک کو زمین کے بدلے کچھ پیسے دیے گئے، جو انہوں نے بوجہ مجبوری وصول کر لی اور اپنا حقِ میراث ساقط کر دیا، اور چوتھی بہن کہتی ہے کہ مجھے میرے حصے کی زمین دے دیں چاہے ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو مجھے پیسے نہیں چاہئیں، لیکن ان کے بھائی حیلے بہانے بنا رہے ہیں، جائیداد میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کچھ (یعنی مروجہ قیمت سے بہت کم) پیسے لے لو اور اپنا حق معاف کر دو، ایک بھائی کہتا ہے کہ اگر زمین لینی ہے پہلے وہ زمین کے انتقال ختم کر دے پھر ہم زمین دیں گے (انتقال کا مطلب زمین کا اپنے نام پر ہونا) زمین بھائیوں نے اپنے نام پر کی ہے ۔

1.کیا بھائیوں کا بہن کو مروجہ قیمت سے کم قیمت لینے پر مجبور کرنا شرعا جائز ہے؟ درحقیقت بہن کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین میں جتنا حصہ بنتا ہے وہ دیا جائے نہ کہ رقم۔

2. زبردستی بہن کا حصہ روک کر اس کو آپس میں تقسیم کر کے استعمال کرنے سے جو پیداوار ہوتی ہیں، کیا بہن کا اس پیداوار میں حصہ ہوگا؟

3. اگر حصہ ہے تو نہ دینے کی صورت میں بھائیوں کے لیے وہ حلال ہوگا یا حرام ؟

4. حرام ہونے کی صورت میں بھائیوں کی قربانی، نماز، روزہ، زکوۃ، حج و عمرہ وغیرہ پر اثر پڑے گا یا نہیں؟

5. کیا بیٹا ماں کی طرف سے ماں کے حصے کا مطالبہ ماموں سے کر سکتا ہے یا نہیں؟

6. نانی کی وفات کے بعد ورثاء میں دو بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑے ہیں، بیٹی کو ماں کی میراث میں جتنا حصہ بنتا ہے زمین زیورات وغیرہ وہ بھی دیا جائے نہ دینے کی صورت میں حرام میں مبتلا ہوں گے یا نہیں؟

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند امور ملاحظہ فرمائیں:

1.شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کوئی وارث اپنا حصۂ میراث دیگر ورثاء کو معاف کردے تو ایسا کرنے سے اس کا حق ساقط نہیں ہوجاتا بلکہ بدستور اس کا حق باقی رہتا ہے، البتہ اگر کوئی وارث اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی وارث کو دے دے تو جس کو دیا ہے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی وارث اپنی مرضی و خوشی سے اپنے حصۂ میراث میں سے کچھ  حصہ وصول کرکے باقی سے دستبردار ہوجائے تب بھی اس کا حصہ ساقط ہوجاتا ہے۔

2.ورثاء میں سے جب کوئی وارث اپنے حصۂ میراث کا مطالبہ کرے تو اس کے مطالبے پر میراث تقسیم کرنا اور اسے حصہ دینا واجب ہوجاتا ہے، یعنی بغیرعذر کے تاخیر کرنا گناہ کا باعث ہوتا ہےاور حدیث کے بموجب ایسا شخص ظالم شمار ہوتا ہے، جیساکہ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال دار (استطاعت والے) کا (ادائیگی میں) ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے‘‘۔

3.کسی وارث کو اس کے حصۂ میراث سے محروم کرنے اور کسی کا حق دبالینے پر احادیث مبارکہ میں بڑی وعیدیں آئی ہیں:

’’حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی‘‘،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے: ’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا)۔‘‘

اور کسی بھی زیادتی کی تلافی دنیا میں ہی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی کی آبروريزی کی ہو یا کوئی اور ظلم کیا ہو اسے چاہیے کہ آج ہی معاف کرالے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس دن نہ دینار قبول کیے جائیں گے نہ درہم، اگر اس (ظالم) کے پاس کوئی عمل صالح ہوگا وہ اس سے لے کر صاحب حق (مظلوم) کو (ظلم کے بقدر) دے دیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس کوئی عمل صالح نہیں ہوگا تو مظلوم کے گناہ اس (ظالم) پر لاد دیے جائیں گے۔‘‘ 

نيز ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مفلس کس کو خیال کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم اور سامان نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن نماز، روزہ، زکات لے کر آئے گا، مگر اس نے کسی کو گالی دی ہوگی اور دوسرے پر تہمت دھری ہوگی اور کسی کا مال لیا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کی مار پٹائی کی ہوگی تو اس کی نیکیاں اس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ دوسرے کو، پھر اگر اس کے ذمہ ادائیگی حقوق سے پہلے نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کی غلطیاں اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا۔‘‘

لہذابہنوں کو ان کا حق  ادا کیے بغیر معاف کرانے سے یہ حق معاف نہیں ہوا اور بہنوں کو اپنے حق کے بدلے کچھ لے کر باقی بھائیوں کو معاف کرنے پر مجبور کرنا بھی جائز نہیں ہے، اگر بہنیں دلی خوشی کے بغیر ایسا کریں گی تو ان کا حق معاف نہیں ہوگا، اس لیے بھائیوں کو چاہیے کہ آخرت کی جواب دہی کو سامنے رکھتے ہوئے بہنوں کو ان کا پورا شرعی حق ادا کریں ورنہ آخرت میں ادائیگی کرنی ہوگی اور مندرجہ بالا احادیث مبارکہ میں آخرت میں ادائیگی کی جو صورت بیان کی گئی ہے اس طرح ادائیگی کے بعد کسی کا پکڑ سے بچ جانا مشکل دکھائی دیتا ہے، دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر آخرت کی دائمی زندگی کو داؤ پر لگانا عقل مندی نہیں ہے۔ 

اب بالترتیب سوالوں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

1.بہن کے حصے میں آنے والی زمین اگر اتنی ہے کہ تقسیم کے بعد بھی ہر ایک وارث اپنے حصے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو پھر بہن کے مطالبے پر اسے زمین ہی دینا لازم ہے، اسے قیمت لینے پر مجبورنہیں کیا جاسکتا، نیز موجودہ قیمت سے کم رقم لینے پر بھی مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

2.بہن کا حصہ آپس میں بانٹ لینے سے اس کا حصہ ساقط نہیں ہوجائے گا، اس کے حصے کی زمین بدستور اسی کی ملکیت رہے گی اور اس حصے کی پیداوار کی ملکیت بھی اسی کی ہوگی۔

3.جب بہن کے حصے کی زمین کی پیداوار بہن کی ملکیت ہے تو اس کی رضامندی کے بغیربھائیوں کا یہ پیداوار اپنے استعمال میں لانا حرام ہے۔

4. حرام کھانے کی صورت میں مذکورہ عبادات کی قبولیت مشکل ہے۔

5.اگر ماں اپنے حصے کی وصولیابی کاوکیل بیٹے کو بنادے تو وہ ماموں سے اپنی ماں کے حصے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ 

6.ماں نے ترکہ میں جو کچھ (زمین، مکان، زیورات، نقد رقم، پہننے کے کپڑے اور استعمال کے جوتے اور برتن وغیرہ) چھوڑا ہے، اس سب میں ہر وارث (بیٹا/بیٹی)  کا شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق حق ہے، اگر کسی وارث کو اس کا حق نہیں دیا جائے گا تو ایسا کرنے والا یقیناً ظالم و غاصب اور حرام خور شمار ہوگا۔  

’’الأشباه والنظائر - ابن نجيم‘‘ میں ہے:

"لو قال الوارث: ‌تركت ‌حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."

(الفن الثالث، ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله،ص:272، ط:دارالكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة."

(كتاب الصلح،فصل في التخارج، 5/ 642، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ‌ذي ‌الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته).

(قوله:وقسم المال المشترك) أي الذي تجري فيه القسمة جبرا بأن كان من جنس واحد كما مر ويأتي (قوله: وبطلب ‌ذي ‌الكثير) أي إن انتفع بحصته وأطلقه لعلمه من المقام، ومفهومه أنه لا يقسم بطلب ذي القليل الذي لا ينتفع إذا أبى المنتفع. ووجهه كما في الهداية أن الأول منتفع فاعتبر طلبه والثاني متعنت فلم يعتبر اهـ ولذا لا يقسم القاضي بينهم إن تضرر الكل وإن طلبوا كما في النهاية، وحينئذ فيأمر القاضي بالمهايأة كما سيذكره الشارح."

(كتاب القسمة، 6/ 260، ط: سعيد)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم فإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع. متفق عليه"

(كتاب البيوع، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الأول،1/ 251، ط: قديمي)

وفيه أيضاً:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته وإن لم يكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه. رواه البخاري

وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أتدرون ما المفلس؟. قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع. فقال: إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة ويأتي وقد شتم هذا وقذف هذا. وأكل مال هذا. وسفك دم هذا وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته وهذا من حسناته فإن فنيت حسناته قبل أن يقضي ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه ثم طرح في النار. رواه مسلم."

(كتاب الآداب، باب الظلم، الفصل الأول، 2/ 435،ط: قديمي)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة 1073) - (تقسيم حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما."

(الكتاب العاشر الشركات، المادة 1073: تقسيم حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك،3/ 26،ط:دارالجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں