بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سودا ہونے کے بعد فلیٹ مشتری کے سپرد کرنے کے باوجود رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کی صورت میں کرائے کا حق دار کون ہوگا؟


سوال

کیا فرماتےہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے 1200000  روپے میں  ایک فلیٹ فروخت کیا تھا،  خریدار نے مجھے سودے کے وقت ہی  300000 روپے ادا کر دیے تھے، بقیہ رقم تین مہینے کے اندر  طے شدہ شیڈول کے مطابق ادا کرنی تھی ، لیکن خریدار  نے بقیہ رقم تین مہینے  کے بجائےدس مہینے میں اپنی مرضی سے تھوڑی تھوڑی کر کے قسطوں کی شکل میں ادا  کی اور سودے کے دن ہی سے فلیٹ کا کرایہ (نو ہزار روپے) خریدار ہی لیتے رہے،  میں نے فلیٹ اپنی ضرورت کی وجہ سے  بیچا تھا، اس کی رقم ایک ادارے میں جمع کروانی تھی، جب کہ خریدار کا  بروقت رقم ادانہ کرنے کی وجہ سے مجھے ادارے کو زائد رقم ادا کرنی پڑی، جس کی وجہ سے مجھے نقصان ہوا۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہےکہ بقیہ رقم  کی ادائیگی میں تاخیر کے باوجود خریدار  نے جو رقم   کرائے کے مد میں (تقریباً نوے ہزور  روپے)وصول کیا اس کا  حق دار کون ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں متعاقدین (فروخت کنندہ اور خریدار )کی باہمی رضامندی سے فلیٹ کا سودا ہونے کے بعد مشتری(خریدار)  کا فلیٹ کی قیمت میں سے تین لاکھ روپے ادا کرکے فلیٹ کو اپنی تحویل میں لیتے ہی اس فلیٹ میں مشتری کی ملکیت ثابت ہوچکی تھی اور فلیٹ  کی قیمت میں سے بقیہ رقم (نو لاکھ روپے ) مشتری (خریدار ) کے ذمہ دین (قرض)تھا۔
لہذا   اس فلیٹ سے  حاصل شدہ   تمام منافع(کرایہ وغیرہ)  کا حق دار مشتری  ہے ، بائع (سائل )  کا فلیٹ کے کرائے میں کوئی حق نہیں ہے، باقی مشتری (خریدار)بھی بقیہ رقم کی ادائیگی میں طے شدہ  شیڈول کا پابند تھا،  اگر مشتری نے گنجائش  کے باوجود  ٹال مٹول سے کام لیا   تھا تو اس  کا یہ عمل انتہائی ناپسندیدہ تھا، اس عمل کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا     ۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي... وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع."

(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج: 3، ص: 2، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌و إذا ‌حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية كذا في الهداية ولا يحتاج في تمام العقد إلى إجازة البائع بعد ذلك وبه قال العامة وهو الصحيح كذا في النهر الفائق."

(کتاب البیوع، الفصل الأول فيما يرجع إلى انعقاد البيع ج:3، ص:4، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"للبائع حبس المبيع إلى قبض الثمن، ولو بقي منه درهم ولو المبيع شيئين بصفقة واحدة."

(كتاب البيوع، مطلب في حبس المبيع لقبض الثمن وفي هلاكه وما يكون قبضا، ج: 4، ص: 561، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں