بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بائیکاٹ کا مقصد نقصان یا ذمہ داری


سوال

کیا غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے واقعی اسرائیل کو نقصان پہنچ رہا ہے دلیل کے ساتھ جواب دیں ۔۔ جو بائیکاٹ نہیں کر رہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے ؟

جواب

بائیکاٹ کا اصل مقصد مسلمان کا اپنی شرعی ،اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کوپورا کرناہے،چاہے کسی کا اس سے نقصان ہو یا نہ لیکن کم ازکم  ایسے  حالات میں (کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کا خوف ہو یا مظالم کی بھرمارہو)اپنی وسعت کے مطابق  کسی اسلام کے  دشمن کو فائدہ نہ پہنچائے ۔اورایسی تمام غیرملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے  ،  جس کا فائدہ اسرائیل کو پہنچتاہو،تاکہ کم ازکم عوامی سطح پر ایسی  کمپنیوں کی مصنوعات مارکیٹ میں بکتی ہیں، کم ہو جائیں یوں ایک اخلاقی اور دینی ذمہ داری بھی پوری ہوسکتی ہے اور جنگ بندی کی طرف اسرائیل جیسے انتہا  پسندملک پر دنیاکا دباؤ بھی   بڑھ سکتاہے۔ایساکرنامظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کااظہارہے اورجابرقوتوں کے خلاف نفرت اورلاتعلقی کا اظہارہے۔ جو لوگ بائیکاٹ کی اس مہم میں شریک نہیں ہیں ،انہیں اس اخلاقی ذمہ داری سے لاتعلق کہاجاسکتاہے، ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی اسرائیل کے تعاون کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين... ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،الفصل الأول،  ج:8 ، ص: 3147، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں