بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت المقدس کی تعمیر جنوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی نگرانی میں کی


سوال

کیا بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نگرانی میں جنات سے بنوایا تھا راجح اور صحیح قول کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد اقصٰی(بیت المقدس ) کی بنیادبیت اللہ شریف کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام  نے ڈالی،  پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصہ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر شروع کی، لیکن بیت المقدس کی  تکمیل یا تعمیر نو اللہ تعالٰی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں لکھی تھی، چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے نگرانی میں جنوں کی ایک جماعت نے مسجد اقصٰی( بیت المقدس ) کو تعمیر کیا۔

تفسیر عثمانی میں ہے:

"حضرت سلیمان علیہ السلام جنوں کے ہاتھوں مسجد اقصی  کی تجدید  کر رہے تھے جب معلوم کیا کہ موت آپہنچی  جنوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں  دربند کرکےعبادت الہی  میں مشغول ہوگئے جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خلوت میں رہ کر عبادت  کیاکرتے تھے، اس حالت میں فرشتوں نے روح قبض کرلی اور آپ کی نعش مبارک لکڑی کے سہارے کھڑی رہی، کسی کو آپ کے وفات کا احساس نہ ہوسکا،وفات کے مدت تک جن بدستور کام کرتے رہے،جب تعمیر پوری ہوگئی جس عصا پر ٹیک لگارہے تھے گھن  کے کھانے سے  گرا،تب سب کووفات  حال معلوم ہوا۔"

(سورۃ سبا، 163/3، ط:دارالاشاعت)

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

"حدیث میں ہے، کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بحکم خداوندی اول خانہ کعبہ  تعمیر  کیا، اور پھر بحکم خداوندی چالیس سال بعد بیت المقدس کو تعمیر کیا،جس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس  میں چالیس کا تفاوت ہے۔"

(سورۃ آلِ عمران، ج: 2 ، ص: 31، لدھیانوی از مولانا ادریس کاندھلوی)

وفیہ ایضاً:

"یہ کہ اللہ تعالٰی نے جنّات کو سلیما ن علیہ السلام کے لیے مسخر کردیا تھا،ان کے حکم  کے مطابق وہ خدمت انجام دیتے  تھے، جب سلیمان علیہ السلام   کی  موت کا وقت آیا تو اللہ  تعالٰی نے چاہا کہ ان کی موت کو جنات پر مستور اور مبہم رکھیں تا کہ جن ّ اسی طرح کام کرتے رہیں، پس جب ہم سلیمان علیہ پر موت کا  حکم جاری کیا تو ایسے طور پر ان پر موت واقع ہوئی، کہ جنّات کو اس کی خبر نہ ہوئی ،جس کی صورت یہ ہوئی ،کہ جنّات  تعمیر کے کام  میں مشغول تھے،سلیمان علیہ السلام حسب دستور ہیکل میں داخل ہوئے اور عصا کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھڑے ہوگئے ، جنّات یہ سمجھے کہ یہ ہماری نگرانی کر رہے ہیں،اسی حالت  آپ کی روح قبض ہوگئی ......................سلیمان علیہ السلام مسجد اقصٰی  کی تعمیر میں مشغول تھے،تعمیر  ہنوز نا مکمل تھی ،کہ وقت آپہنچا، اللہ تعالٰی نے اس تدبیر سے کھڑا  رکھا تاکہ ان کی موت کے بعد ان کے باقی  ماندہ کام کی تکمیل ہوجائے۔"

(سورۃ السبا، ج: 6 ،ص: 309۔310، ط:لدھیانوی از مولانا ادریس کاندھلوی )

قصص القرآن میں ہے:

"حضرت سلیمان ؑ  نے یہ ارادہ فرمایا کہ مسجد ( ہیکل ) کے چار جانب ایک عظیم الشان شہر آباد کیا جائے،اور مسجد کی تعمیر بھی ازسر نو   کی جائے ، ان کی خواہش یہ تھی کہ مسجد اور شہر کو بیش قیمت پتھروں  سے بنوائیں اور  اس کے لیے بعید سے بعید   اطراف سے حسین اور بڑے بڑے پتھر منگوائیں ، ظاہر ہےکہ اس زمانہ  کے رسل  و رسائل کے محدودد اور مختصروسائل سلیمان ؑکی خواہش کی تکمیل کے لیے کافی نہیں تھےاور یہ کام صرف"جن"ہی انجام دے سکتے تھے ، لہذا انہوں نے "جن "ہی سے یہ خدمت لی۔"

(حضرت سیلمان علیہ السلام،74/2، ط:مکتبہ رحمانیہ)

صحيح البخاری میں ہے:

"حدثني عمر بن حفص: حدثنا أبي: حدثنا الأعمش: حدثنا إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي ذر رضي الله عنه قال:

قلت: يا رسول الله، أي مسجد وضع أول؟ قال: (المسجد الحرام). قلت: ثم أي؟ قال: (ثم المسجد الأقصى). قلت: كم كان بينهما؟ قال: (أربعون، ثم قال: حيثما أدركتك الصلاة فصل، والأرض لك مسجد)."

(کتاب الانبیاء، 1260/3، ط: دارالکثیر)

حاشیہ بخاری میں ہے:

"(بإذن ربه) بأمر ربه. (يزغ) يعدل ويمل. (أمرنا) بطاعة سليمان عليه السلام. (محاريب) مساكن أو مساجد."

(کتاب الانبیاء، 1259/3، ط: دارالکثیر)

عمدہ القاری فی شرح البخاری میں ہے:

"بين بناء المسجد الحرام وبناء المسجد الأقصى. قوله: (أربعون سنة) ، أي: بينهما أربعون سنة. وقال ابن الجوزي: فيه إشكال، لأن إبراهيم بنى الكعبة وسليمان، عليه الصلاة والسلام، بنى بيت المقدس، وبينهما أكثر من ألف سنة، والجواب عنه ما قاله القرطبي: إن الآية الكريمة والحديث لا يدلان على أن إبراهيم وسليمان، عليهما الصلاة والسلام، ابتدآ وضعهما، بل كان تجديدا لما أسس غيرهما، وقد روي أن أول من بنى البيت آدم، وعلى هذا فيجوز أن يكون غيره من ولده رفع بيت المقدس بعده بأربعين عاما، ويوضحه من ذكره ابن هشام في كتاب (التيجان) : إن آدم لما بنى البيت أمره جبريل، عليه الصلاة والسلام، بالمسير إلى بيت المقدس، وأن يبنيه فبناه ونسك فيه، وقال ابن كثير: أول ما جعله مسجدا إسرائيل صلى الله عليه وسلم، وإنما أمر سليمان بتجديده وإحكامه، لا أنه أول من بنى. وذكر الثعلبي: أن داود صلى الله عليه وسلم أمر بني إسرائيل أن يتخذوا مسجدا في صعيد بيت المقدس، فأخذوا في بنائه لإحدى عشرة سنة مضت من ملك داود، وكان داود ينقل لهم الحجارة على عاتقه، فأوحى الله إلى داود: إنك لست بانيه ولكن لك ابن أملكه بعدك اسمه سليمان فأقضي إتمامه على يديه، وروي عن كعب الأحبار: أن سليمان بنى بيت المقدس على أساس قديم كان اسسه سام بن نوح صلى الله عليه وسلم، وذكر أبو محمد بن أحمد الواسطي في (تاريخ بيت المقدس)."

(كتاب بدء الخلق، باب يزفون النسلان في المشي، 262/15، ط: دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں