بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت المقدس کی طرف رخ یا پیٹھ کرکے قضائے حاجت کرنا


سوال

 قضاۓ حاجت کے وقت منہ اورکمر قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف کرنا شریعت میں کیساعمل ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیت المقدس  ہمارے بلاد سے جانبِ مغرب میں ہی واقع ہے، البتہ بیت اللہ کے مقابلے میں چند درجے شمال کی جانب ہے، لیکن ہمارے ہاں سے اسے شمال کی جانب نہیں کہا جائے گا، بلکہ مغرب میں ہی کہا جائے گا، جب کہ بیت اللہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بیت المقدس مکہ مکرمہ سے شمال کی طرف ہے، اور بیت اللہ اور بیت المقدس کے درمیان مدینہ منورہ ہے،  بعض روایات میں قضائے حاجت کے دوران دونوں قبلوں کی طرف رُخ اور پیٹھ کرنے کی ممانعت منقول ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بیت المقدس کی طرف رُخ یا پشت کی جائے تو بیت اللہ اس کی جانبِ مقابل میں ہوتاہے؛ لامحالہ بیت اللہ کی طرف پشت یا رُخ ہوجائے گا، لہٰذا ایسے علاقوں میں بیت الخلا میں بیت المقدس کی طرف رُخ یا پشت کرنے کا مطلب بیت اللہ کی بے ادبی ہے، اس لیے اس کی ممانعت ہوگی، لیکن جہاں بیت اللہ کی طرف رض یا پشت نہ ہوتی ہو وہاں اجازت ہوگی۔

بذل المجهول في حل سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة:

"(نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تستقبل القبلتين) أي الكعبة وبيت المقدس (ببول وغائط) فيحتمل أنه احترام لبيت المقدس مدة كونه قبلةً لنا، أو لأن باستقباله تستدبر الكعبة لمن كان بنحو طيبة، فليس النهي لحرمة القدس".

(رقم الحديث 10، الطبعة الثالثة، (1/199) دار البشائر الإسلامية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204201243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں